فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں، کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے۔ حکمت 67
(١٤٤) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۴۴)
وَ قَدِ اسْتَشَارَهٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی الشُّخُوْصِ لِقِتَالِ الْفُرْسِ بِنَفْسِهٖ:
جب حضرت عمر ابن خطاب نے جنگ فارس میں شریک ہونے کیلئے آپؑ سے مشورہ لیا تو آپؑ نے فرمایا: [۱]
اِنَّ هٰذَا الْاَمْرَ لَمْ یَكُنْ نَّصْرُهٗ وَ لَا خِذْلَانُهٗ بِكَثْرَةٍ وَّ لَا بِقِلَّةٍ، وَ هُوَ دِیْنُ اللهِ الَّذِیْۤ اَظْهَرَهٗ، وَ جُنْدُهُ الَّذِیْۤ اَعَدَّهٗ وَ اَمَدَّهٗ، حَتّٰی بَلَغَ مَا بَلَغَ، وَ طَلَعَ حَیْثُ طَلَعَ، وَ نَحْنُ عَلٰی مَوْعُوْدٍ مِّنَ اللهِ، وَاللهُ مُنْجِزٌ وَّعْدَهٗ، وَ نَاصِرٌ جُنْدَهٗ.
اس امر میں کامیابی و ناکامیابی کا دارو مدار فوج کی کمی بیشی پر نہیں رہا ہے۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جسے اُس نے (سب دینوں پر) غالب رکھا ہے اور اسی کا لشکر ہے جسے اُس نے تیار کیا ہے اور اس کی ایسی نصرت کی ہے کہ وہ بڑھ کر اپنی موجودہ حد تک پہنچ گیا ہے اور پھیل کر اپنے موجودہ پھیلاؤ پر آ گیا ہے اور ہم سے اللہ کا ایک وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور اپنے لشکر کی خود ہی مدد کرے گا۔
وَ مَكَانُ الْقَیِّمِ بِالْاَمْرِ مَكَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ یَجْمَعُهٗ وَ یَضُمُّهٗ، فَاِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ الْخَرَزُ وَ ذَهَبَ، ثُمَّ لَمْ یَجْتَمِـعْ بِحَذَافِیْرِهٖۤ اَبَدًا. وَ الْعَرَبُ الْیَوْمَ وَ اِنْ كَانُوْا قَلِیْلًا، فَهُمْ كَثِیْرُوْنَ بِالْاِسْلَامِ، وَ عَزِیْزُوْنَ بِالْاِجْتِمَاعِ! فَكُنْ قُطْبًا، وَ اسْتَدِرِ الرَّحٰی بِالْعَرَبِ، وَ اَصْلِهِمْ دُوْنَكَ نَارَ الْحَرْبِ، فَاِنَّكَ اِنْ شَخَصْتَ مِنْ هٰذِهِ الْاَرْضِ انْتَقَضَتْ عَلَیْكَ الْعَرَبُ مِنْ اَطْرَافِهَا وَ اَقْطَارِهَا، حَتّٰی یَكُوْنَ مَا تَدَعُ وَرَآءَكَ مِنَ الْعَوْرَاتِ اَهَمَّ اِلَیْكَ مِمَّا بَیْنَ یَدَیْكَ.
امور (سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈورے کی جو انہیں سمیٹ کر رکھتا ہے۔ جب ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے۔ آج عرب والے اگرچہ گنتی میں کم ہیں مگر اسلام کی وجہ سے وہ بہت ہیں اور اتحاد باہمی کے سبب سے (فتح و) غلبہ پانے والے ہیں۔ تم اپنے مقام پر کھونٹی کی طرح جمے رہو اور عرب کا نظم و نسق برقرار رکھو اور ان ہی کو جنگ کی آگ کا مقابلہ کرنے دو۔ اس لئے کہ اگر تم نے اس سرزمین کو چھوڑا تو عرب اطراف و جوانب سے تم پر ٹوٹ پڑیں گے، یہاں تک کہ تمہیں اپنے سامنے کے حالات سے زیادہ ان مقامات کی فکر ہو جائے گی جنہیں تم اپنے پس پشت غیر محفوظ چھوڑ کر گئے ہو۔
اِنَّ الْاَعَاجِمَ اِنْ یَّنْظُرُوْۤا اِلَیْكَ غَدًا یَقُوْلُوْا: هٰذَا اَصْلُ الْعَرَبِ، فَاِذَا اقْتَطَعْتُمُوْهُ اسْتَرَحْتُمْ، فَیَكُوْنُ ذٰلِكَ اَشَدَّ لِكَلَبِهِمْ عَلَیْكَ، وَ طَمَعِهِمْ فِیْكَ.
کل اگر عجم والے تمہیں دیکھیں گے تو (آپس میں) یہ کہیں گے کہ یہ ہے ’’سردار عرب‘‘ اگر تم نے اس کا قلع قمع کردیا تو آسودہ ہو جاؤ گے۔تو اس کی وجہ سے ان کی حرص و طمع تم پر زیادہ ہو جائے گی۔
فَاَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ مَّسِیْرِ الْقَوْمِ اِلٰی قِتَالِ الْمُسْلِمِیْنَ، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ هُوَ اَكْرَهُ لِمَسِیْرِهِمْ مِنْكَ، وَ هُوَ اَقْدَرُ عَلٰی تَغْیِیْرِ مَا یَكْرَهُ. وَ اَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ عَدَدِهِمْ، فَاِنَّا لَمْ نَكُنْ نُّقَاتِلُ فِیْمَا مَضٰی بِالْكَثْرَةِ، وَ اِنَّمَا كُنَّا نُقَاتِلُ بِالنَّصْرِ وَ الْمَعُوْنَةِ!.
لیکن یہ جو تم کہتے ہو کہ وہ لوگ مسلمانوں سے لڑنے بھڑنے کیلئے چل کھڑے ہوئے ہیں تو اللہ ان کے بڑھنے کو تم سے زیادہ بُرا سمجھتا ہے اور وہ جسے بُرا سمجھے اس کے بدلنے (اور روکنے) پر بہت قدرت رکھتا ہے اور ان کی تعداد کے متعلق جو کہتے ہو (کہ وہ بہت ہیں) تو ہم سابق میں کثرت کے بل بوتے پر نہیں لڑا کرتے تھے بلکہ (اللہ کی) تائید و نصرت (کے سہارے) پر۔

۱؂جب حضرت عمر کو کچھ لوگوں نے جنگ قادسیہ یا جنگِ نہاوند کے موقع پر شریک کا رزار ہونے کا مشورہ دیا تو آپ نے لوگوں کے مشورہ کو اپنے جذبات کے خلاف سمجھتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ لینا بھی ضروری سمجھا کہ اگر انہوں نے ٹھہرنے کا مشورہ دیا تو دوسروں کے سامنے یہ عذر کر دیا جائے گا کہ امیر المومنین علیہ السلام کے مشورہ کی وجہ سے رک گیا ہوں اور اگر انہوں نے بھی شریک جنگ ہونے کا مشورہ دیا تو پھر کوئی اور تدبیر سوچ لی جائے گی۔ چنانچہ حضرتؑ نے دوسروں کے خلاف انہیں ٹھہرے رہنے ہی کا مشورہ دیا۔ دوسرے لوگوں نے تو اس بنا پر انہیں شرکت کا مشورہ دیا تھا کہ وہ دیکھ چکے تھے کہ رسول اللہ ﷺ صرف لشکر والوں ہی کو جنگ میں نہ جھونکتے تھے بلکہ خود بھی شرکت فرماتے تھے اور اپنے خاندان کے عزیز ترین فردوں کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کے پیش نظر یہ چیز تھی کہ ان کی شرکت اسلام کیلئے مفید نہیں ہو سکتی، بلکہ ان کا اپنے مقام پر ٹھہرے رہنا ہی مسلمانوں کو پراگندگی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
حضرتؑ کا ارشاد کہ ’’حاکم کی حیثیت ایک محور کی ہوتی ہے جس کے گرد نظام مملکت گھومتا ہے‘‘، ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی خاص شخصیت کے متعلق نہیں ہے۔ چنانچہ حکمران مسلمان ہو یا کافر، عادل ہو یا ظالم، نیک عمل ہو یا بد کردار، مملکت کے نظم و نسق کیلئے اس کا وجود ناگزیر ہے۔ جیسا کہ حضرتؑ نے اس مطلب کو دوسرے مقام پر وضاحت سے بیان فرمایا ہے:
وَ اِنَّهٗ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ اَمِیْرٍ بَرٍّ اَوْ فَاجِرٍ، یَعْمَلُ فِیْۤ اِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ، وَ یَسْتَمْتِعُ فِیْهَا الْكَافِرُ، وَ یُبَلِّغُ اللهُ فِیْهَا الْاَجَلَ، وَ یُجْمَعُ بِهِ الْفَیْءُ، وَ یُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ، وَ تَاْمَنُ بِهِ السُّبُلُ، وَ یُؤْخَذُ بِهٖ لِلضَّعِیْفِ مِنَ الْقَوِیِّ، حَتّٰی یَسْتَرِیْحَ بَرٌّ، وَ یُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِرٍ.
لوگوں کیلئے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے، وہ نیک ہو یا بد کردار۔ (اگر نیک ہو گا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا اور (اگر فاسق ہو گا تو) کافر اس کے عہد میں بہرہ اندوز ہوں گے اور اللہ اس نظام حکومت کی ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا۔ اس حاکم کی وجہ سے (چاہے وہ اچھا ہو یا برا) مالیات فراہم ہوتے ہیں، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں، یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے اور برے حاکم (کے مرنے یا معزول ہونے) سے دوسروں کو راحت پہنچے۔[۴]
حضرتؑ نے مشورہ کے موقع پر جو الفاظ کہے ہیں ان سے حضرت عمر کے حاکم و صاحب اقتدار ہونے کے علاوہ اور کسی خصوصیت کا اظہار نہیں ہوتا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہیں دنیاوی اقتدار حاصل تھا، چاہے وہ صحیح طریق سے حاصل ہوا ہو یا غلط طریق سے اور جہاں اقتدار ہو وہاں رعیت کی مرکزیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے حضرتؑ نے فرمایا کہ: اگر وہ نکل کھڑے ہوں گے تو پھر عرب بھی جوق در جوق میدان جنگ کا رُخ کریں گے، کیونکہ جب حکمران ہی نکل کھڑا ہو تو رعیت پیچھے رہنا گوارا نہ کرے گی اور ان کے نکلنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شہروں کے شہر خالی ہو جائیں گے اور دشمن بھی ان کے میدان جنگ میں پہنچ جانے سے یہ اندازہ کر لے گا کہ اسلامی شہر خالی پڑے ہیں۔ اگر انہیں پسپا کر دیا گیا تو پھر مسلمانوں کو مرکز سے کمک حاصل نہیں ہو سکتی اور اگر حکمران ہی کو ختم کر دیا گیا تو فوج خود بخود منتشر ہو جائے گی۔ کیونکہ حکمران بمنزلہ اساس و بنیاد کے ہوتا ہے۔ جب بنیاد ہی ہل جائے تو دیواریں کہاں کھڑی رہ سکتی ہیں۔ یہ ’’اصل العرب‘‘ (عرب کی جڑ) کی لفظ حضرتؑ نے اپنی طرف سے نہیں فرمائی، بلکہ عجموں کی زبان سے نقل کی ہے اور ظاہر ہے کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کی نظروں میں بنیاد عرب ہی سمجھے جا رہے تھے اور پھر یہ اضافت ’’ملک‘‘ کی طرف ہے، ’’اسلام‘‘ یا ’’مسلمین‘‘ کی طرف نہیں ہے کہ اسلامی اعتبار سے ان کی کسی اہمیت کا اظہار ہو۔
جب حضرتؑ نے انہیں بتایا کہ ان کے پہنچ جانے سے عجم انہی کی تاک میں رہیں گے اور ہتھے چڑھ جانے پر وہ قتل کئے بغیر نہ رہیں گے تو ایسی باتیں اگرچہ شجاعوں کیلئے سمند ہمت پر تازیانہ کا کام دیتی ہیں اور ان کا جوش و ولولہ اُبھر آتا ہے، مگر آپ نے ٹھہرے رہنے ہی کا مشورہ پسند فرمایا اور جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن بچانا ہی بہتر سمجھا۔ اگر یہ مشورہ ان کے طبعی میلان کے موافق نہ ہوتا تو وہ اس طرح خندہ پیشانی سے اس کا خیر مقدم نہ کرتے، بلکہ کچھ کہتے سنتے اور یہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ ملک میں کسی کو نائب بنا کر ملکی نظم و نسق کو برقرار رکھا جا سکتا ہے اور پھر جب اور لوگوں نے جانے کا مشورہ دیا تھا تو امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ لینے کا داعی اس کے علاوہ ہو ہی کیا سکتا تھا کہ رک جانے کا کوئی سہارا مل جائے۔

[۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۴۰۔