فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے۔ حکمت 61
(١٥٠) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۵۰)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الدَّالِّ عَلٰی وُجُوْدِهٖ بِخَلْقِهٖ، وَ بِمُحْدَثِ خَلْقِهٖ عَلٰۤی اَزَلِیَّتِهٖ، وَ بِاشْتِبَاهِهِمْ عَلٰۤی اَنْ لَّا شَبَهَ لَهٗ. لَا تَسْتَلِمُهُ الْمَشَاعِرُ، وَ لَا تَحْجُبُهُ السَّوَاتِرُ، لِافْتِرَاقِ الصَّانِعِ وَ الْمَصْنُوْعِ، وَ الْحَادِّ وَ الْمَحْدُوْدِ، وَ الرَّبِّ وَ الْمَرْبُوْبِ.
تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے کہ جو خلق (کائنات سے) اپنے وجود کا اور پیدا شدہ مخلوقات سے اپنے قدیم و ازلی ہونے کا اور ان کی باہمی شباہت سے اپنے بے نظیر ہونے کا پتہ دینے والا ہے۔ نہ حواس اسے چھو سکتے ہیں اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔ چونکہ بنانے والے اور بننے والے، گھیرنے والے اور گھرنے والے، پالنے والے اور پرورش پانے والے میں فرق ہوتا ہے۔
اَلْاَحَدِ لَا بِتَاْوِیْلِ عَدَدٍ، وَ الْخَالِقِ لَا بِمَعْنٰی حَرَكَةٍ وَّ نَصَبٍ، وَ السَّمِیْعِ لَا بِاَدَاةٍ، وَ الْبَصِیْرِ لَا بِتَفْرِیْقِ اٰلَةٍ، وَ الشَّاهِدِ لَابِمُمَاسَّةٍ، وَ الْبَآئِنِ لَابِتَرَاخِیْ مَسَافَةٍ، وَ الظَّاهِرِ لَابِرُؤْیَةٍ، وَ الْبَاطِنِ لَا بِلَطَافَةٍ.
وہ ایک ہے لیکن نہ ویسا کہ جو شمار میں آئے، وہ پیدا کرنے والا ہے لیکن نہ اس معنی سے کہ اسے حرکت کرنا اور تعب اٹھانا پڑے، وہ سننے والا ہے لیکن نہ کسی عضو کے ذریعہ سے اور دیکھنے والا ہے، لیکن نہ اس طرح کہ آنکھیں پھیلائے، وہ حاضر ہے لیکن نہ اس طرح کہ چھوا جا سکے، وہ جدا ہے نہ اس طرح کہ بیچ میں فاصلہ کی دوری ہو۔ وہ ظاہر بظاہر ہے مگر آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ذاتا پوشیدہ ہے نہ لطافت جسمانی کی بنا پر۔
بَانَ مِنَ الْاَشْیَآءِ بِالْقَهْرِ لَهَا، وَ الْقُدْرَةِ عَلَیْهَا، وَ بَانَتِ الْاَشْیَآءُ مِنْهُ بِالْخُضُوْعِ لَهٗ، وَ الرُّجُوْعِ اِلَیْهِ.
وہ سب چیزوں سے اس لئے علیحدہ ہے کہ وہ ان پر چھایا ہوا ہے اور ان پر اقتدار رکھتا ہے اور تمام چیزیں اِس لئے اُس سے جدا ہیں کہ وہ اس کے سامنے جھکی ہوئی اور اس کی طرف پلٹنے والی ہیں۔
مَنْ وَّصَفَهٗ فَقَدْ حَدَّهٗ، وَ مَنْ حَدَّهٗ فَقَدْ عَدَّهٗ، وَ مَنْ عَدَّهٗ فَقَدْ اَبْطَلَ اَزَلَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: »كَیْفَ« فَقَدِ اسْتَوْصَفَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: »اَیْنَ« فَقَدْ حَیَّزَهٗ.
جس نے (ذات کے علاوہ) اس کیلئے صفات تجویز کئے اس نے اس کی حد بندی کر دی اور جس نے اسے محدود خیال کیا وہ اسے شمار میں آنے والی چیزوں کی قطار میں لے آیا اور جس نے اسے شمار کے قابل سمجھ لیا اس نے اس کی قدامت ہی سے انکار کر دیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ ’’کیسا‘‘ ہے وہ اس کیلئے (الگ سے) صفتیں ڈھونڈھنے لگا اور جس نے یہ کہا کہ وہ ’’کہاں‘‘ ہے اس نے اسے کسی جگہ میں محدود سمجھ لیا۔
عَالِمٌ اِذْ لَا مَعْلُوْمٌ، وَ رَبٌّ اِذْ لَا مَرْبُوْبٌ، وَ قَادِرٌ اِذْ لَا مَقْدُوْرٌ.
وہ اس وقت بھی عالم تھا جب کہ معلوم کا وجود نہ تھا اور اس وقت بھی ربّ تھا جب کہ پرورش پانے والے نہ تھے اور اس وقت بھی قادر تھا جب کہ یہ زیر قدرت آنے والی مخلوق نہ تھی۔ [۱]
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
قَدْ طَلَعَ طَالِعٌ، وَ لَمَعَ لَامِعٌ، وَ لَاحَ لَاۗئِحٌ، وَ اعْتَدَلَ مَآئِلٌ، وَ اسْتَبْدَلَ اللهُ بِقَوْمٍ قَوْمًا، وَ بِیَوْمٍ یَّوْمًا، وَ انْتَظَرْنَا الْغِیَـرَ انْتِظَارَ الْمُجْدِبِ الْمَطَرَ.
ابھرنے والا ابھر آیا، چمکنے والا چمک اٹھا، ظاہر ہونے والا ظاہر ہوا اور ٹیڑھے معاملے سیدھے ہو گئے۔ اللہ نے جماعت کو جماعت سے اور زمانہ کو زمانہ سے بدل دیا ہے۔ ہم اس انقلاب کے اس طرح منتظر تھے جس طرح قحط زدہ بارش کا۔
وَاِنَّمَا الْاَئِمَّةُ قُوَّامُ اللهِ عَلٰی خَلْقِهٖ، وَعُرَفَآئُهٗ عَلٰی عِبَادِهٖ، لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ عَرَفَهُمْ وَ عَرَفُوْهُ، وَلَا یَدْخُلُ النَّارَ اِلَّا مَنْ اَنْكَرَهُمْ وَ اَنْكَرُوْهُ.
بلاشبہ آئمہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حاکم ہیں اور اس کو بندوں سے پہچنوانے والے ہیں۔ جنت میں وہی جائے گا جسے ان کی معرفت ہو اور وہ بھی اسے پہچانیں اور دوزخ میں وہی ڈالا جائے گا جو نہ انہیں پہچانے اور نہ وہ اسے پہچانیں۔
اِنَّ اللهَ تَعَالٰی خَصَّكُمْ بِالْاِسْلَامِ، وَ اسْتَخْلَصَكُمْ لَهٗ، وَ ذٰلِكَ لِاَنَّهُ اسْمُ سَلَامَةٍ، وَ جِمَاعُ كَرَامَةٍ، اصْطَفَی اللهُ تَعَالٰی مَنْهَجَهٗ، وَ بَیَّنَ حُجَجَهٗ، مِنْ ظَاهِرِ عِلْمٍ، وَ بَاطِنِ حِكَمٍ، لَا تَفْنٰی غَرَآئِبُهٗ، وَ لَا تَنْقَضِیْ عَجَآئِبُهٗ، فِیْهِ مَرَابِیْعُ النِّعَمِ، وَ مَصَابِیْحُ الظُّلَمِ. لَا تُفْتَحُ الْخَیْرَاتُ اِلَّا بِمَفَاتِیْحِهٖ، وَ لَا تُكْشَفُ الظُّلُمٰتُ اِلَّا بِمَصَابِیِحِهٖ، قَدْ اَحْمٰی حِمَاهُ، وَ اَرْعٰی مَرْعَاهُ، فِیْهِ شِفَآءُ الْمُسْتَشْفِیْ، وَ كِفَایَةُ الْمُكْتَفِیْ.
اللہ نے تمہیں اسلام کیلئے مخصوص کر لیا ہے اور اس کیلئے تمہیں چھانٹ لیا ہے اور یہ اس طرح کہ اسلام سلامتی کا نام اور عزت انسانی کا سرمایہ ہے۔ اس کی راہ کو اللہ نے تمہارے لئے چن لیا ہے اور اس کے کھلے ہوئے احکام اور چھپی ہوئی حکمتوں سے اس کے دلائل واضح کر دئیے ہیں۔ نہ اس کے عجائبات مٹنے والے ہیں اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں، اسی میں نعمتوں کی بارشیں اور تاریکیوں کے چراغ ہیں، اسی کی کنجیوں سے نیکیوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اسی کے چراغوں سے تیرگیوں کا دامن چاک کیا جاتا ہے۔ خدا نے اس کے ممنوعہ مقامات سے روکا ہے اور اس کی چراگاہوں میں چرنے کی اجازت دی ہے۔ شفا چاہنے والے کیلئے اس میں شفا اور بے نیازی چاہنے والے کیلئے اس میں بے نیازی ہے۔

۱؂اس خطبہ کا پہلا جز علم الٰہیات کے اہم مطالب پر مشتمل ہے جس میں خلق کائنات سے خالق کائنات کے وجود پر استدلال فرماتے ہوئے اس کی ازلیت و عینیت صفات پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ جب ہم کائنات پر نظر کرتے ہیں تو ہر حرکت کے پیچھے کسی محرک کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے جس سے ایک سطحی ذہن والا انسان بھی یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کوئی اثر مؤثر کے بغیر ظاہر نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ چند دنوں کا ایک بچہ بھی اپنے جسم کے چھوئے جانے سے اپنے شعور کے دھندلکوں میں یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی چھونے والا ہے جس کا اظہار وہ آنکھوں کو کھولنے یا مڑ کر دیکھنے سے کرتا ہے تو پھر کس طرح دنیائے کائنات کی تخلیق اور عالم کون و مکاں کا نظم و نسق کسی خالق و منتظم کے بغیر مانا جا سکتا ہے؟۔
جب ایک خالق کا اعتراف ضروری ہوا تو اسے موجود بالذات ہونا چاہیے، کیونکہ ہر وہ چیز جس کی ابتدا ہے اس کیلئے ایک مرکز وجود کا ہونا ضروری ہے کہ جس تک وہ منتہی ہو۔ تو اگر وہ بھی کسی موجد کا محتاج ہوگا تو پھر اس موجد کیلئے سوال ہو گا کہ وہ از خود ہے یا کسی کا بنایا ہوا اور جب تک ایک موجود بالذات ہستی کا اقرار نہ کیا جائے کہ جو تمام ممکنات کیلئے علۃ العلل ہو، عقل علت و معلول کے نامتناہی سلسلوں میں بھٹک کر سلسلہ موجودات کی آخری کڑی کا تصور بھی نہ کر سکے گی اور تسلسل کے چکر میں پڑ کر اسے کہیں ٹھہراؤ نصیب نہ ہوگا اور اگر خود اسی کو اپنی ذات کا خالق فرض کیا جائے تو دو صورتوں سے خالی نہیں ہوگا یا تو وہ معدوم ہوگا یا موجود، اگر معدوم ہو گا تو معدوم کسی کو موجود نہیں بنا سکتا اور اگر موجود ہو گا تو اسے دوبارہ موجود کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوتے، لہٰذا اسے ایسا موجود ماننا پڑے گا جو اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہ ہو اور اس کے ماسوا ہر چیز اس کی محتاج ہو اور یہی احتیاج کائنات اس سرچشمہ وجود کے ازلی اور ہمیشہ سے برقرار ہونے کی شاہد ہے۔
اور اس کے علاوہ چونکہ ہر چیز تغیر پذیر ہے، محل و مکان کی محتاج ہے اور عوارض و صفات میں ایک دوسرے کے مشابہ ہے اور مشابہت کثرت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور وحدت اپنی آپ ہی نظیر ہے، اس لئے کوئی چیز اس کی مثل و نظیر نہیں ہو سکتی اور ایک کہی جانے والی چیزوں کو بھی اس کی یکتائی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ ہر اعتبار سے واحد و یگانہ ہے۔ وہ ان تمام چیزوں سے منزہ و مبرا ہے جو جسم و جسمانیات میں پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ نہ وہ جسم ہے، نہ رنگ ہے، نہ شکل ہے، نہ کسی جہت میں واقع ہے اور نہ کسی محل و مکان میں محدود ہے۔ اس لئے انسان اپنے حواس و مشاعر کے ذریعہ اس کا ادراک و مشاہدہ نہیں کر سکتا، کیونکہ حواس انہی چیزوں کا ادراک کر سکتے ہیں جو زمان و مکان اور مادہ کے حدود کی پابند ہوں۔ لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ دیکھا جا سکتا ہے اس کیلئے جسم مان لینا ہے اور جب وہ جسم ہی نہیں ہے اور نہ جسم کے ساتھ قائم ہے اور نہ کسی جہت و مکان میں واقع ہے تو اس کے دیکھے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی یہ پوشیدگی ان لطیف اجسام کی طرح نہیں ہے کہ جن سے ان کی لطافت کی وجہ سے نگاہیں آر پار ہو جاتی ہیں اور آنکھیں انہیں دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں۔ جیسے فضا کی پہنائیوں میں ہوا، بلکہ وہ ذاتی طور پر پوشیدہ ہے۔ البتہ اس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے۔
وہ دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے، لیکن آلات سماعت و بصارت کا محتاج نہیں، کیونکہ اگر وہ دیکھنے سننے کیلئے اعضا کا محتاج ہو گا تو اس کی ذات اپنے کمالات میں خارجی چیزوں کی دست نگر ہو گی اور بحیثیت ذات کامل نہ رہے گی، حالانکہ وہ ہر لحاظ سے کامل ہے اور اس کا کوئی کمال اس کی ذات سے الگ نہیں، کیونکہ ذات کے علاوہ الگ سے صفات ماننے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذات ہو گی اور کچھ صفتیں اور اس ذات و صفات کے مجموعہ کا نام ہوگا ’’خدا‘‘ اور جو چیز اجزا سے مرکب ہو وہ اپنے وجود میں اجزا کی محتاج ہوتی ہے اور ان اجزا کو مرکب کے ترکیب پانے سے پہلے موجود ہونا چاہیے۔ تو جب اجزا اس پر مقدم ہوں گے تو وہ ہمیشہ سے موجود اور ازلی کیونکر ہو سکتا ہے، جبکہ اس کا وجود اجزا سے متاخر ہے۔ حالانکہ وہ اس وقت بھی علم و قدرت و ربوبیت لئے ہوئے تھا جبکہ کوئی چیز موجود نہ تھی، کیونکہ اس کی کوئی صفت خارج سے اس میں پیدا نہیں ہوئی، بلکہ جو صفت ہے وہی ذات ہے اور جو ذات ہے وہی صفت ہے۔ اس لئے اس کا علم اس پر منحصر نہیں ہے کہ معلوم کا وجود ہو لے تو پھر وہ جانے، کیونکہ اس کی ذات حادث ہونے والے معلومات سے مقدم ہے اور نہ اس کی قدرت کیلئے ضروری ہے کہ مقدور کا وجود ہو تو وہ قادر سمجھا جائے، کیونکہ قادر اسے کہتے ہیں جو ترک و فعل پر یکساں اختیار رکھتا ہو اور اس کیلئے مقدور کا ہونا ضروری نہیں اور یونہی ربّ کے معنی مالک کے ہیں اور وہ جس طرح معدوم کا اس کے موجود ہونے کے بعد مالک ہے اسی طرح موجود کے پردہ عدم میں ہونے کی صورت میں اسے موجود کرنے پر اختیار رکھتا ہے کہ چاہے اسے معدوم رہنے دے اور چاہے اسے وجود بخش دے۔