فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

خوشا نصیب اس کے جس نے آخرت کو یاد رکھا، حساب و کتاب کیلئے عمل کیا، ضرورت بھر پر قناعت کی اور اللہ سے راضی و خوشنود رہا۔ حکمت 44
(١٥٨) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۵۸)
اَمْرُهٗ قَضَآءٌ وَّ حِكْمَةٌ، وَ رِضَاهُ اَمَانٌ وَ رَحْمَةٌ، یَقْضِیْ بِعِلْمٍ، وَ یَعْفُوْ بِحِلْمٍ.
اس کا حکم فیصلہ کن اور حکمت آمیز اور اس کی خوشنودی امان اور رحمت ہے۔ وہ اپنے علم سے فیصلہ کرتا ہے اور اپنے حلم سے عفو کرتا ہے۔
اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلٰی مَا تَاْخُذُ وَ تُعْطِیْ، وَ عَلٰی مَا تُعَافِیْ وَ تَبْتَلِیْ،حَمْدًا یَّكُوْنُ اَرْضَی الْحَمْدِ لَكَ، وَ اَحَبَّ الْحَمْدِ اِلَیْكَ، وَ اَفْضَلَ الْحَمْدِ عِنْدَكَ، حَمْدًا یَّمْلَاُ مَا خَلَقْتَ، وَ یَبْلُغُ مَاۤ اَرَدْتَّ، حَمْدًا لَّا یُحْجَبُ عَنْكَ، وَ لَا یُقْصَرُ دُوْنَكَ، حَمْدًا لَّا یَنْقَطِعُ عَدَدُهٗ، وَ لَا یَفْنٰی مَدَدُهٗ.
بارالٰہا! تو جو کچھ (دے کر) لے لیتا ہے اور جو کچھ عطا کرتا ہے اور جن (مرضوں سے) شفا دیتا ہے اور جن آزمائشوں میں ڈالتا ہے (سب پر) تیرے لئے حمد و ثنا ہے، ایسی حمد جو انتہائی درجے تک تجھے پسند آئے اور انتہائی درجے تک تجھے محبوب ہو اور تیرے نزدیک ہر ستائش سے بڑھ چڑھ کر ہو، ایسی حمد جو کائنات کو بھر دے اور جو تو نے چاہا ہے اس کی حد تک پہنچ جائے، ایسی حمد کہ جس کے آگے تیری بارگاہ تک پہنچنے سے کوئی حجاب ہے اور نہ اس کیلئے کوئی بندش، ایسی حمد کہ جس کی گنتی نہ کہیں پر ٹوٹے اور نہ اس کا سلسلہ ختم ہو۔
فَلَسْنَا نَعْلَمُ كُنْهَ عَظَمَتِكَ اِلَّاۤ اَنَّا نَعْلَمُ اَنَّكَ حَیٌّ قَیُّوْمٌ، لَا تَاْخُذُكَ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ، لَمْ یَنْتَهِ اِلَیْكَ نَظَرٌ، وَ لَمْ یُدْرِكْكَ بَصَرٌ، اَدْرَكْتَ الْاَبْصَارَ، وَ اَحْصَیْتَ الْاَعْمَارَ، وَ اَخَذْتَ بِالنَّواصِیْ وَ الْاَقْدَامِ، وَ مَا الَّذِیْ نَرٰی مِنْ خَلْقِكَ، وَ نَعْجَبُ لَهٗ مِنْ قُدْرَتِكَ، وَ نَصِفُهٗ مِنْ عَظِیْمِ سُلْطَانِكَ، وَ مَا تَغَیَّبَ عَنَّا مِنْهُ، وَ قَصُرَتْ اَبْصَارُنَا عَنْهُ، وَ انْتَهَتْ عُقُوْلُنَا دُوْنَهٗ، وَ حَالَتْ سَوَاتِرُ الْغُیُوْبِ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهٗۤ اَعْظَمُ.
ہم تیری عظمت و بزرگی کی حقیقت کو نہیں جانتے، مگر اتنا کہ تو زندہ و کار ساز (عالم) ہے، نہ تجھے غنودگی ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے، نہ تارِ نظر تجھ تک پہنچ سکتا ہے اور نہ نگاہیں تجھے دیکھ سکتی ہیں، تو نے نظروں کو پا لیا ہے اور عمروں کا احاطہ کر لیا ہے اور پیشانی کے بالوں کو پیروں (سے ملا کر) گرفت میں لے لیا ہے۔ یہ تیری مخلوق کیا ہے جو ہم دیکھتے ہیں اور اس میں تیری قدرت (کی کارسازیوں) پر تعجب کرتے ہیں اور تیری عظیم فرمانروائی (کی کارفرمائیوں) پر اس کی توصیف کرتے ہیں، حالانکہ درحقیقت وہ (مخلوقات) جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے اور جس تک پہنچنے سے ہماری نظریں عاجز اور عقلیں درماندہ ہیں اور ہمارے اور جن کے درمیان غیب کے پردے حائل ہیں اس سے کہیں زیادہ با عظمت ہے۔
فَمَنْ فَرَّغَ قَلْبَهٗ، وَ اَعْمَلَ فِكْرَهٗ، لِیَعْلَمَ كَیْفَ اَقَمْتَ عَرْشَكَ، وَ كَیْفَ ذَرَاْتَ خَلْقَكَ، وَ كَیْفَ عَلَّقْتَ فِی الْهَوَآءِ سَمٰوٰتِكَ، وَ كَیْفَ مَدَدْتَ عَلٰی مَوْرِ الْمَآءِ اَرْضَكَ، رَجَعَ طَرْفُهٗ حَسِیْرًا، وَ عَقْلُهٗ مَبْهُوْرًا، وَ سَمْعُهٗ وَالِهًا، وَ فِكْرُهٗ حَآئِرًا.
جو شخص (وسوسوں سے) اپنے دل کو خالی کرکے اور غور و فکر (کی قوتوں) سے کام لے کر یہ جاننا چاہے کہ تو نے کیونکر عرش کو قائم کیا ہے اور کس طرح مخلوقات کو پیدا کیا ہے اور کیونکر آسمانوں کو فضا میں لٹکایا ہے اور کس طرح پانی کے تھپیڑوں پر زمین کو بچھایا ہے تو اس کی آنکھیں تھک کر اور عقل مغلوب ہو کر اور کان حیران و سراسیمہ اور فکر گم گشتہ راہ ہو کر پلٹ آئے گی۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
یَدَّعِیْ بِزَعْمِهٖۤ اَنَّهٗ یَرْجُو اللهَ، كَذَبَ وَ الْعَظِیْمِ! مَا بَالُهٗ لَا یَتَبَیَّنُ رَجَآؤُهٗ فِیْ عَمَلَهٖ؟ فَكُلُّ مَنْ رَّجَا عُرِفَ رَجَآؤُهٗ فِیْ عَمَلِهٖ، وَ كُلُّ رَجَآءٍ ـ اِلَّا رَجَآءَ اللهِ تَعَالٰی ـ فَاِنَّهٗ مَدْخُوْلٌ، وَ كُلُّ خَوْفٍ مُّحَقَّقٌ، اِلَّا خَوْفَ اللهِ فَاِنَّهٗ مَعْلُوْلٌ، یَرْجُو اللهَ فِی الْكَبِیْرِ، وَ یَرْجُو الْعِبَادَ فِی الصَّغِیْرِ، فَیُعْطِی الْعَبْدَ مَا لَا یُعْطِی الرَّبَّ! فَمَا بَالُ اللهِ جَلَّ ثَنَآؤُهٗ یُقَصَّرُ بِهٖ عَمَّا یُصْنَعُ بِهٖ لِعِبَادِهٖ؟
وہ اپنے خیال میں اس کا دعویدار بنتا ہے کہ اس کا دامنِ امید اللہ سے وابستہ ہے۔ خدائے برتر کی قسم! وہ جھوٹا ہے۔ (اگر ایسا ہی ہے) تو پھرکیوں اس کے اعمال میں اس امید کی جھلک نمایاں نہیں ہوتی، جبکہ ہر امیدوار کے کاموں میں امید کی پہچان ہو جایا کرتی ہے، سوائے اس امید کے کہ جو اللہ سے لگائی جائے کہ اس میں کھوٹ پایا جاتا ہے اور ہر خوف و ہراس جو (دوسروں سے ہو) ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے مگر اللہ کا خوف غیر یقینی سا ہے۔ وہ اللہ سے بڑی چیزوں کا اور بندوں سے چھوٹی چیزوں کا امیدوار ہوتا ہے۔ پھر بھی جو عاجزی کا رویہ بندوں سے رکھتا ہے وہ رویہ اللہ سے نہیں برتتا تو آخر کیا بات ہے کہ اللہ کے حق میں اتنا بھی نہیں کیا جاتا جتنا بندوں کیلئے کیا جاتا ہے۔
اَ تَخَافُ اَنْ تَكُوْنَ فِیْ رَجَآئِكَ لَهٗ كَاذِبًا؟ اَوْ تَكُوْنَ لَا تَرَاهُ لِلرَّجَآءِ مَوْضِعًا؟ وَكَذٰلِكَ اِنْ هُوَ خَافَ عَبْدًا مِّنْ عَبِیْدِهٖ، اَعْطَاهُ مِنْ خَوْفِهٖ مَا لَا یُعْطِیْ رَبَّهٗ، فَجَعَلَ خَوْفَهٗ مِنَ الْعِبَادِ نَقْدًا، وَ خَوْفَهٗ مِنْ خَالِقِهٖ ضِمَارًا وَّ وَعْدًا، وَ كَذٰلِكَ مَنْ عَظُمَتِ الدُّنْیَا فِیْ عَیْنِهٖ، وَ كَبُرَ مَوْقِعُهَا مِنْ قَلْبِهٖ، اٰثَرَهَا عَلَی اللهِ تَعَالٰی، فَانْقَطَعَ اِلَیْهَا، وَ صَارَ عَبْدًا لَّهَا.
کیا تمہیں کبھی اس کا بھی اندیشہ ہوا ہے کہ کہیں تم ان امیدوں (کے دعووں) میں جھوٹے تو نہیں؟ یا یہ کہ تم اسے محل امید ہی نہیں سمجھتے۔ یوں ہی انسان اگر اس کے بندوں میں سے کسی بندے سے ڈرتا ہے تو جو خوف کی صورت اس کیلئے اختیار کرتا ہے اللہ کیلئے ویسی صورت اختیار نہیں کرتا۔ انسانوں کا خوف تو اس نے نقد کی صورت میں رکھا ہے اور اللہ کا ڈر صرف ٹال مٹول اور (غلط سلط) وعدے۔ یوں ہی جس کی نظروں میں دنیا عظمت پا لیتی ہے اور اس کے دل میں اس کی عظمت و وقعت بڑھ جاتی ہے تو وہ اسے اللہ پر ترجیح دیتا ہے اور اس کی طرف مڑتا ہے اور اسی کا بندہ ہو کر رہ جاتا ہے۔
وَ لَقَدْ كَانَ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ كَافٍ لَّكَ فِی الْاُسْوَةِ، وَ دَلِیْلٌ لَّكَ عَلٰی ذَمِّ الدُّنْیَا وَ عَیْبِهَا، وَ كَثْرَةِ مَخَازِیْهَا وَ مَسَاوِیْهَا، اِذْ قُبِضَتْ عَنْهُ اَطْرَافُهَا، وَ وُطِّئَتْ لِغَیْرِهٖ اَكْنَافُهَا، وَ فُطِمَ عَنْ رَّضَاعِهَا، وَ زُوِیَ عَنْ زَخَارِفِهَا.
تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کا قول و عمل پیروی کیلئے کافی ہے اور ان کی ذات دنیا کے عیب و نقص اور اس کی رسوائیوں اور برائیوں کی کثرت دکھانے کیلئے رہنما ہے۔ اس لئے کہ اس دنیا کے دامنوں کو ان سے سمیٹ لیا گیا اور دوسروں کیلئے اس کی وسعتیں مہیا کر دی گئیں اور اس (زالِ دنیا کی چھاتیوں سے) آپؐ کا دودھ چھڑا دیا گیا اور اس کی آرائشوں سے آپؐ کا رخ موڑ دیا گیا۔
وَ اِنْ شِئْتَ ثَنَّیْتُ بِمُوْسٰی كَلِیْمِ اللهِ ؑ اِذْ یَقُوْلُ: ﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ۝﴾، وَاللهِ١ مَا سَئَلَهٗۤ اِلَّا خُبْزًا یَّاْكُلُهٗ، لِاَنَّهٗ كَانَ یَاْكُلُ بَقْلَةَ الْاَرْضِ، وَلَقَدْ كَانَتْ خُضْرَةُ الْبَقْلِ تُرٰی مِنْ شَفِیْفِ صِفَاقِ بَطْنِهٖ، لِهُزَالِهٖ وَ تَشَذُّبِ لَحْمِهٖ.
اگر دوسرا نمونہ چاہو تو موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام ہیں کہ جنہوں نے اپنے اللہ سے کہا کہ: ’’پروردگار! تو جو کچھ بھی اس وقت تھوڑی بہت نعمت بھیج دے گا میں اسی کا محتاج ہوں‘‘۔ خدا کی قسم! انہوں نے صرف کھانے کیلئے روٹی کا سوال کیا تھا۔ چونکہ وہ زمین کا ساگ پات کھاتے تھے اور لاغری اور (جسم پر) گوشت کی کمی کی وجہ سے ان کے پیٹ کی نازک جلد سے گھاس پات کی سبزی دکھائی دیتی تھی۔
وَ اِنْ شِئْتَ ثَلَّثْتُ بِدَاوٗدَ ؑ صَاحِبِ الْمَزَامِیْرِ، وَ قَارِئِ اَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلَقَدْ كَانَ یَعْمَلُ سَفَآئِفَ الْخُوْصِ بِیَدِهٖ، وَ یَقُوْلُ لِجُلَسَآئِهٖ: اَیُّكُمْ یَكْفِیْنِیْ بَیْعَهَا! وَ یَاْكُلُ قُرْصَ الشَّعِیْرِ مِنْ ثَمَنِهَا.
اگر چاہو تو تیسری مثال داؤد علیہ السلام کی سامنے رکھ لو جو صاحب زبور اور اہل جنت کے قاری ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کی پتیوں کی ٹوکریاں بُنا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے کہ: تم میں سے کون ہے جو انہیں بیچ کر میری دستگیری کرے۔ (پھر) جو اس کی قیمت ملتی اس سے جو کی روٹی کھا لیتے تھے۔
وَ اِنْ شِئْتَ قُلْتُ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ ؑ، فَلَقَدْ كَانَ یَتَوَسَّدُ الْحَجَرَ، وَ یَلْبَسُ الْخَشِنَ، وَ كَانَ اِدَامُهُ الْجُوْعَ، وَ سِرَاجُهٗ بِاللَّیْلِ الْقَمَرَ، وَ ظِلَالُهٗ فِی الشِّتَآءِ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا، وَ فَاكِهَتُهٗ وَ رَیْحَانُهٗ مَا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ لِلْبَهَآئِمِ، وَ لَمْ تَكُنْ لَّهٗ زَوْجَةٌ تَفْتِنُهٗ، وَ لَا وَلَدٌ یَّحْزُنُهٗ، وَ لَا مَالٌ یَّلْفِتُهٗ، وَ لَا طَمَعٌ یُّذِلُّهٗ، دَآبَّتُهٗ رِجْلَاهُ، وَ خَادِمُهٗ یَدَاهُ!.
اگر چاہو تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا حال کہوں کہ جو (سر کے نیچے) پتھر کا تکیہ رکھتے تھے سخت اور کھردرا لباس پہنتے تھے اور (کھانے) میں سالن کے بجائے بھوک اور رات کے چراغ کی جگہ چاند اور سردیوں میں سایہ کے بجائے (ان کے سر پر) زمین کے مشرق و مغرب کا سائبان ہوتا تھا اور زمین جو گھاس پھوس چوپاؤں کیلئے اُگاتی تھی، وہ ان کیلئے پھل پھول کی جگہ تھی، نہ ان کی بیوی تھیں جو انہیں دنیا (کے جھنجٹوں) میں مبتلا کرتیں اور نہ بال بچے تھے کہ ان کیلئے فکر و اندوہ کا سبب بنتے اور نہ مال و متاع تھا کہ ان کی توجہ کو موڑتا اور نہ کوئی طمع تھی کہ انہیں رسوا کرتی۔ ان کی سواری ان کے دونوں پاؤں اور خادم ان کے دونوں ہاتھ تھے۔
فَتَاَسَّ بِنَبِیِّكَ الْاَطْیَبِ الْاَطْهَرِ- ﷺ، فَاِنَّ فِیْهِ اُسْوَةً لِّمَنْ تَاَسّٰی، وَ عَزَآءً لِّمَنْ تَعَزّٰی ــ وَ اَحَبُّ الْعِبَادِ اِلَی اللهِ الْمُتَاَسِّیْ بِنَبِیِّهٖ، وَ الْمُقْتَصُّ لِاَثَرِهٖ ـ قَضَمَ الدُّنْیَا قَضْمًا، وَ لَمْ یُعِرْهَا طَرْفًا، اَهْضَمُ اَهْلِ الدُّنْیَا كَشْحًا، وَ اَخْمَصُهُمْ مِنَ الدُّنْیَا بَطْنًا، عُرِضَتْ عَلَیْهِ الدُّنْیَا فَاَبٰی اَنْ یَّقْبَلَهَا، وَ عَلِمَ اَنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗۤ اَبْغَضَ شَیْئًا فَاَبْغَضَهٗ، وَ حَقَّرَ شَیْئًا فَحَقَّرَهٗ، وَ صَغَّرَ شَیْئًا فَصَغَّرَهٗ. وَلَوْ لَمْ یَكُنْ فِینَاۤ اِلَّا حُبُّنَا مَاۤ اَبْغَضَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ، وَ تَعْظِیْمُنَا مَا صَغَّرَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ، لَكَفٰی بِهٖ شِقَاقًا لِلّٰهِ، وَ مُحَادَّةً عَنْ اَمْرِ اللهِ.
تم اپنے پاک و پاکیزہ نبیؐ کی پیروی کرو، چونکہ ان کی ذات اتباع کرنے والے کیلئے نمونہ اور صبر کرنے والے کیلئے ڈھارس ہے۔ ان کی پیروی کرنے والا اور ان کے نقش قدم پر چلنے والا ہی اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، جنہوں نے دنیا کو (صرف ضرورت بھر) چکھا اور اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا۔ وہ دنیا میں سب سے زیادہ شکم تہی میں بسر کرنے والے اور خالی پیٹ رہنے والے تھے۔ ان کے سامنے دنیا کی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور (جب) جان لیا کہ اللہ نے ایک چیز کو برا جانا ہے تو آپؐ نے بھی اسے برا ہی جانا اور اللہ نے ایک چیز کو حقیر سمجھا ہے تو آپؐ نے بھی اسے حقیر ہی سمجھا اور اللہ نے ایک چیز کو پست قرار دیا ہے تو آپؐ نے بھی اسے پست ہی قرار دیا۔ اگر ہم میں صرف یہی ایک چیز ہو کہ ہم اس شے کو چاہنے لگیں جسے اللہ اور رسولؐ برا سمجھتے ہیں اور اس چیز کو بڑا سمجھنے لگیں جسے وہ حقیر سمجھتے ہیں تو اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرتابی کیلئے یہی بہت ہے۔
وَ لَقَدْ كَانَ- ﷺ یَاْكُلُ عَلَی الْاَرْضِ، وَ یَجْلِسُ جِلْسَةَ الْعَبْدِ، وَ یَخْصِفُ بِیَدِهٖ نَعْلَهٗ، وَ یَرْقَعُ بِیَدِهٖ ثَوْبَهٗ، وَ یَرْكَبُ الْحِمَارَ الْعَارِیَ، وَ یُرْدِفُ خَلْفَهٗ، وَ یَكُوْنُ السِّتْرُ عَلٰی بَابِ بَیْتِهٖ فَتَكُوْنُ فِیْهِ التَّصَاوِیْرُ فَیَقُوْلُ: «یَا فُلَانَةُ! ـ لِاِحْدٰۤی اَزْوَاجِهٖ ـ غَیِّبِیْهِ عَنِّیْ، فَاِنِّیْۤ اِذَا نَظَرْتُ اِلَیْهِ ذَكَرْتُ الدُّنْیَا وَ زَخَارِفَهَا».
رسول اللہ ﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے، اپنے ہاتھ سے جوتی ٹانکتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے اور بے پالان کے گدھے پر سوار ہوتے تھے اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتے تھے۔ گھر کے دروازہ پر (ایک دفعہ) ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپؐ نے اپنے ازواج میں سے ایک کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو۔ جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آ جاتی ہیں۔
فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهٖ، وَ اَمَاتَ ذِكْرَهَا مِنْ نَّفْسِهٖ، وَ اَحَبَّ اَنْ تَغِیْبَ زِیْنَتُهَا عَنْ عَیْنِهٖ، لِكَیْلَا یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشًا، وَ لَا یَعْتَقِدَهَا قَرَارًا، وَ لَا یَرْجُوْ فِیْهَا مُقَامًا، فَاَخْرَجَهَا مِنَ النَّفْسِ، وَ اَشْخَصَهَا عَنِ الْقَلْبِ، وَ غَیَّبَهَا عَنِ الْبَصَرِ. وَ كَذٰلِكَ مَنْ اَبْغَضَ شَیْئًا اَبْغَضَ اَنْ یَّنْظُرَ اِلَیْهِ، وَ اَنْ یُّذْكَرَ عِنْدَهٗ.
آپؐ نے دنیا سے دل ہٹا لیا تھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تاکہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں اور نہ اسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے اسے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اسے اوجھل رکھا تھا۔ یونہی جو شخص کسی شے کو برا سمجھتا ہے تو نہ اسے دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے۔
وَ لَقَدْ كَانَ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ مَا یَدُلُّكَ عَلٰی مَسَاوِی الدُّنْیَا وَ عُیُوْبِهَا: اِذْ جَاعَ فِیْهَا مَعَ خَاصَّتِهٖ، وَ زُوِیَتْ عَنْهُ زَخَارِفُهَا مَعَ عَظِیْمِ زُلْفَتِهٖ.
رسول اللہ ﷺ (کے عادات و خصائل) میں ایسی چیزیں ہیں کہ جو تمہیں دنیا کے عیوب و قبائح کا پتہ دیں گی، جبکہ آپؐ اس دنیا میں اپنے خاص افراد سمیت بھوکے رہا کرتے تھے اور باوجود انتہائی قربِ منزلت کے اس کی آرائشیں ان سے دور رکھی گئیں۔
فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌۢ بِعَقْلِهٖ: اَكْرَمَ اللهُ مُحَمَّدًۢا بِذٰلِكَ اَمْ اَهَانَهٗ؟! فَاِنْ قَالَ: اَهَانَهٗ، فَقَدْ كَذَبَ وَ اَتٰى بِالْاِفْكِ الْعَظِیْمِ، وَ اِنْ قَالَ: اَكْرَمَهٗ، فَلْیَعْلَمْ اَنَّ اللهَ قَدْ اَهَانَ غَیْرَهٗ حَیْثُ بَسَطَ الدُّنْیَا لَهٗ، وَ زَوَاهَا عَنْ اَقْرَبِ النَّاسِ مِنْهُ.
چاہیے کہ دیکھنے والا عقل کی روشنی میں دیکھے کہ اللہ نے انہیں دنیا نہ دے کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا اہانت کی ہے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ اہانت کی ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے اور بہت بڑا بہتان باندھا اور اگر یہ کہے کہ عزت بڑھائی ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ نے دوسروں کی بے عزتی ظاہر کی جبکہ انہیں دنیا کی زیادہ سے زیادہ وسعت دے دی اور اس کا رخ اپنے مقرب ترین بندے سے موڑ رکھا۔
فَتَاَسّٰی مُتَاَسٍّۭ بِنَبِیِّهٖ، وَ اقْتَصَّ اَثَرَهٗ، وَ وَلَجَ مَوْلِجَهٗ، وَ اِلَّا فَلَا یَاْمَنِ الْهَلَكَةَ، فَاِنَّ اللهَ جَعَلَ مُحَمَّدًا -ﷺ عَلَمًا لِلسَّاعَةِ، وَ مُبَشِّرًۢا بِالْجَنَّةِ، وَ مُنْذِرًۢا بِالْعُقُوْبَةِ. خَرَجَ مِنَ الدُّنْیَا خَمِیْصًا، وَ وَرَدَ الْاٰخِرَةَ سَلِیْمًا، لَمْ یَضَعْ حَجَرًا عَلٰی حَجَرٍ، حَتّٰی مَضٰی لِسَبِیْلِهٖ، وَ اَجَابَ دَاعِیَ رَبِّهٖ.
پیروی کرنے والے کو چاہیے کہ ان کی پیروی کرے اور ان کے نشان قدم پر چلے اور انہی کی منزل میں آئے ورنہ ہلاکت سے محفوظ نہیں رہ سکتا، کیونکہ اللہ نے ان کو (قرب) قیامت کی نشانی اور جنت کی خوشخبری سنانے والا اور عذاب سے ڈرانے والا قرار دیا ہے۔ دنیا سے آپؐ بھوکے نکل کھڑے ہوئے اور آخرت میں سلامتیوں کے ساتھ پہنچ گئے۔ آپؐ نے تعمیر کیلئے کبھی پتھر پر پتھر نہیں رکھا، یہاں تک کہ آخرت کی راہ پر چل دئیے اور اللہ کی طرف بلاوا دینے والے کی آواز پر لبیک کہی۔
فَمَاۤ اَعْظَمَ مِنَّةَ اللهِ عِنْدَنَا حِیْنَ اَنْعَمَ عَلَیْنَا بِهٖ سَلَفًا نَتَّبِعُهٗ، وَ قَآئِدًا نَّطَاُ عَقِبَهٗ! وَاللهِ! لَقَدْ رَقَّعْتُ مِدْرَعَتِیْ هٰذِهٖ حَتَّی اسْتَحْیَیْتُ مِنْ رَّاقِعِهَا، وَ لَقَدْ قَالَ لِیْ قَآئِلٌ: اَلَا تَنْبِذُهَا عَنْكَ؟ فَقُلْتُ: اغْرُبْ عَنِّیْ، فَعِنْدَ الصَّبَاحِ یَحْمَدُ الْقَوْمُ السُّرٰی!.
یہ اللہ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسے پیشرو و پیشوا جیسی نعمت عظمیٰ بخشی کہ جن کی ہم پیروی کرتے ہیں اور قدم بہ قدم چلتے ہیں۔ (انہی کی پیروی میں) خدا کی قسم! میں نے اپنی اس قمیص میں اتنے پیوند لگائے ہیں کہ مجھے پیوند لگانے والے سے شرم آنے لگی ہے۔مجھ سے ایک کہنے والے نے کہا کہ کیا آپؑ اسے اتاریں گے نہیں؟ تو میں نے اسے کہا کہ: میری (نظروں سے) دور ہو کہ صبح کے وقت ہی لوگوں کو رات کے چلنے کی قدر ہوتی ہے اور وہ اس کی مدح کرتے ہیں۔