فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے۔ حکمت 76
(١٨٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۸۳)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا تُدْرِكُهُ الشَّوَاهِدُ، وَ لَا تَحْوِیْهِ الْمَشَاهِدُ، وَ لَا تَرَاهُ النَّوَاظِرُ، وَ لَا تَحْجُبُهُ السَّوَاتِرُ، الدَّالِّ عَلٰی قِدَمِهٖ بِحُدُوْثِ خَلْقِهٖ، وَ بِحُدُوْثِ خَلْقِهٖ عَلٰی وُجُوْدِهٖ، وَ بِاشْتِبَاهِهِمْ عَلٰۤی اَنْ لَّا شِبْهَ لَهٗ، الَّذِیْ صَدَقَ فِیْ مِیْعَادِهٖ، وَ ارْتَفَعَ عَنْ ظُلْمِ عِبَادِهٖ، وَ قَامَ بِالْقِسْطِ فِیْ خَلْقِهٖ، وَ عَدَلَ عَلَیْهِمْ فِیْ حُكْمِهٖ، مُسْتَشْهِدٌۢ بِحُدُوْثِ الْاَشْیَآءِ عَلٰی اَزَلِیَّتِهٖ، وَ بِمَا وَ سَمَهَا بِهٖ مِنَ الْعَجْزِ عَلٰی قُدْرَتِهٖ، وَ بِمَا اضْطَرَّهَاۤ اِلَیْهِ مِنَ الْفَنَآءِ عَلٰی دَوَامِهٖ.
ساری حمد و ستائش اس اللہ کیلئے ہے جسے حواس پا نہیں سکتے، نہ جگہیں اسے گھیر سکتی ہیں، نہ آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہیں، نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔ وہ مخلوقات کے نیست کے بعد ہست ہونے سے اپنے ہمیشہ سے ہونے کا اور ان کے باہم مشابہ ہونے سے اپنے بے مثل و بے نظیر ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ وہ اپنے وعدہ میں سچا اور بندوں پر ظلم کرنے سے بالا تر ہے۔ وہ مخلوق کے بارے میں عدل سے چلتا ہے اور اپنے حکم میں انصاف برتتا ہے۔ وہ چیزوں کے وجود پذیر ہونے سے اپنی قدامت پر اور ان کے عجز و کمزوری کے نشانوں سے اپنی قدرت پر اور ان کے فنا ہو جانے کی اضطراری کیفیتوں سے اپنی ہمیشگی پر، (عقل سے) گواہی حاصل کرتا ہے۔
وَاحِدٌ لَّا بِعَدَدٍ، وَ دَآئِمٌ لَّا بِاَمَدٍ، وَ قَآئِمٌ لَا بِعَمَدٍ، تَتَلَقَّاهُ الْاَذْهَانُ لَا بِمُشَاعَرَةٍ، وَ تَشْهَدُ لَهُ الْمَرَآئِیْ لَا بِمُحَاضَرَةٍ، لَمْ تُحِطْ بِهِ الْاَوْهَامُ، بَلْ تَجَلّٰی لَهَا بِهَا، وَ بِهَا امْتَنَعَ مِنْهَا، وَ اِلَیْهَا حَاكَمَهَا، لَیْسَ بِذِیْ كِبَرٍ امْتَدَّتْ بِهِ النِّهَایَاتُ فَكَبَّرَتْهُ تَجْسِیْمًا، وَ لَا بِذِیْ عِظَمٍ تَنَاهَتْ بِهِ الْغَایَاتُ فَعَظَّمَتْهُ تَجْسِیْدًا، بَلْ كَبُرَ شَاْنًا وَّ عَظُمَ سُلْطَانًا.
وہ گنتی اور شمار میں آئے بغیر ایک (یگانہ) ہے۔ وہ کسی (متعینہ) مدت کے بغیر ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور ستونوں (اعضاء) کے سہارے کے بغیر قائم و برقرار ہے۔ حواس و مشاعر کے بغیر ذہن اسے قبول کرتے ہیں اور اس تک پہنچے بغیر نظر آنے والی چیزیں اس کی ہستی کی گواہی دیتی ہیں۔ عقلیں اس کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتیں، بلکہ وہ عقلوں کے وسیلہ سے عقلوں کیلئے آشکارا ہوا ہے اور عقلوں ہی کے ذریعہ سے عقل و فہم میں آنے سے انکاری ہے اور ان کے معاملہ میں خود انہی کو حکم ٹھہرایا ہے۔ وہ اس معنی سے بڑا نہیں کہ اس کے حدود و اطراف پھیلے ہوئے ہیں کہ جو اُسے مجسّم صورت میں بڑا کر کے دکھاتے ہیں اور نہ اس اعتبار سے عظیم ہے کہ وہ جسامت میں انتہائی حدوں تک پھیلا ہوا ہے، بلکہ وہ شان و منزلت کے اعتبار سے بڑا ہے اور دبدبه و اقتدار کے لحاظ سے عظیم ہے۔
وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُہُ الصَّفِیُّ، وَ اَمِیْنُهُ الرَّضِیُّ -ﷺ اَرْسَلَهٗ بِوُجُوْبِ الْحُجَجِ، وَ ظُهُوْرِ الْفَلَجِ، وَ اِیْضَاحِ الْمَنْهَجِ، فَبَلَّغَ الرِّسَالَةَ صَادِعًۢا بِهَا، وَ حَمَلَ عَلَی الْمَحَجَّةِ دَالًّا عَلَیْهَا، وَ اَقَامَ اَعْلَامَ الْاِهْتِدَآءِ وَ مَنَارَ الضِّیَآءِ، وَ جَعَلَ اَمْرَاسَ الْاِسْلَامِ مَتِیْنَةً، وَ عُرَا الْاِیْمَانِ وَثِیْقَةً.
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور برگزیدہ رسول اور پسندیدہ امین ہیں۔ خدا ان پر اور ان کے اہل بیتؑ پر رحمت فراواں نازل کرے۔ اللہ نے انہیں ناقابل انکار دلیلوں، واضح کامرانیوں اور راہ (شریعت) کی رہنمائیوں کے ساتھ بھیجا۔ چنانچہ آپؐ نے (حق کو باطل سے) چھانٹ کر اس کا پیغام پہنچایا، راہ حق دکھا کر اس پر لوگوں کو لگایا، ہدایت کے نشان اور روشنی کے مینار قائم کئے، اسلام کی رسیوں اور ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کیا۔
[مِنْهَا:]
[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
فِیْ صِفَةِ عَجِیْبِ خَلْقِ اَصْنَافٍ مِّنَ الْحَیَوَانِ
جس میں مختلف قسم کے جانوروں کی عجیب و غریب آفرینش کا ذکر فرمایا ہے
وَ لَوْ فَكَّرُوْا فِیْ عَظِیْمِ الْقُدْرَةِ، وَ جَسِیْمِ النِّعْمَةِ، لَرَجَعُوْۤا اِلَی الطَّرِیْقِ، وَ خَافُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ، وَ لٰكِنَّ الْقُلُوْبَ عَلِیْلَةٌ، وَ الْبَصَآئِرَ مَدْخُوْلَةٌ! اَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلٰی صَغِیْرِ مَا خَلَقَ، كَیْفَ اَحْكَمَ خَلْقَهٗ، وَ اَتْقَنَ تَرْكِیْبَهٗ، وَ فَلَقَ لَهُ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ، وَ سَوّٰی لَهُ الْعَظْمَ وَ الْبَشَرَ!.
اگر لوگ اس کی عظیم الشان قدرتوں اور بلند پايہ نعمتوں میں غور و فکر کریں تو سیدھی راہ کی طرف پلٹ آئیں اور دوزخ کے عذاب سے خوف کھانے لگیں، لیکن دل بیمار اور بصیرتیں کھوٹی ہیں۔ کیا وہ لوگ ان چھوٹے چھوٹے جانوروں کو کہ جنہیں اس نے پیدا کیا ہے، نہیں دیکھتے کہ کیونکر ان کی آفرینش کو استحکام بخشا ہے اور ان کے جوڑ بند کو باہم استواری کے ساتھ ملایا ہے اور ان کیلئے کان اور آنکھ (کے سوراخ) کھولے ہیں اور ہڈی اور کھال کو (پوری مناسبت سے) درست کیا ہے۔
اُنْظُرُوْۤا اِلَی النَّمْلَةِ فِیْ صِغَرِ جُثَّتِهَا، وَ لَطَافَةِ هَیْئَتِهَا، لَا تَكَادُ تُنَالُ بِلَحْظِ الْبَصَرِ، وَ لَا بِمُسْتَدْرَكِ الْفِكَرِ، كَیْفَ دَبَّتْ عَلٰۤی اَرْضِهَا، وَ صُبَّتْ عَلٰی رِزْقِهَا، تَنْقُلُ الْحَبَّةَ اِلٰی جُحْرِهَا، وَ تُعِدُّهَا فِیْ مُسْتَقَرِّهَا، تَجْمَعُ فِیْ حَرِّهَا لِبَرْدِهَا، وَ فِیْ وُرُوْدِهَا لِصَدَرِهَا، مَكْفُوْلَۃٌۢ بِرِزْقِهَا، مَرْزُوْقَةٌۢ بِوِفْقِهَا، لَا یُغْفِلُهَا الْمَنَّانُ، وَ لَا یَحْرِمُهَا الدَّیَّانُ، وَلَوْ فِی الصَّفَا الْیَابِسِ، وَ الْحَجَرِ الْجَامِسِ!.
ذرا اس چیونٹی [۱] کی طرف اس کی جسامت کے اختصار اور شکل و صورت کی باریکی کے عالم میں نظر کرو۔ اتنی چھوٹی کہ گوشۂ چشم سے بمشکل دیکھی جا سکے اور نہ فکروں میں سماتی ہے۔ دیکھو تو کیونکر زمین پر رینگتی پھرتی ہے اور اپنے رزق کی طرف لپکتی ہے اور دانے کو اپنے بِل کی طرف لئے جاتی ہے اور اسے اپنے قیام گاہ میں مہیا رکھتی ہے اور گرمیوں میں جاڑے کے موسم کیلئے اور قوت و توانائی کے زمانے میں عجز و درماندگی کے دنوں کیلئے ذخیرہ اکٹھا کر لیتی ہے۔ اس کی روزی کا ذمہ لیا جا چکا ہے اور اس کے مناسب حال رزق اسے پہنچتا رہتا ہے۔ خدائے کریم اس سے تغافل نہیں برتتا اور صاحب عطا و جزا اسے محروم نہیں رکھتا، اگرچہ وہ خشک پتھر اور جمے ہوئے سنگ خارا کے اندر کیوں نہ ہو۔
وَ لَوْ فَكَّرْتَ فِیْ مَجَارِیْۤ اَكْلِهَا، وَ فِیْ عُلْوِهَا وَ سُفْلِهَا، وَ مَا فِی الْجَوْفِ مِنْ شَرَاسِیْفِ بَطْنِهَا، وَ مَا فِی الرَّاْسِ مِنْ عَیْنِهَا وَ اُذُنِهَا، لَقَضَیْتَ مِنْ خَلْقِهَا عَجَبًا، وَ لَقِیْتَ مِنْ وَّصْفِهَا تَعَبًا! فَتَعَالَی الَّذِیْۤ اَقَامَهَا عَلٰی قَوَآئِمِهَا، وَ بَنَاهَا عَلٰی دَعَآئِمِهَا! لَمْ یَشْرَكْهُ فِیْ فِطْرَتِهَا فَاطِرٌ، وَ لَمْ یُعِنْهُ فِیْ خَلْقِهَا قَادِرٌ.
اگر تم اس کی غذا کی نالیوں اور اس کے بلند و پست حصوں اور اس کے خول میں پیٹ کی طرف جھکے ہوئے پسلیوں کے کناروں اور اس کے سر میں (چھوٹی چھوٹی) آنکھوں اور کانوں (کی ساخت) میں غور و فکر کرو گے تو اس کی آفرینش پر تمہیں تعجب ہو گا اور اس کا وصف کرنے میں تمہیں تعب اٹھانا پڑے گا۔ بلند و برتر ہے وہ کہ جس نے اس کو اس کے پیروں پر کھڑا کیا ہے اور ستونوں (اعضاء) پر اس کی بنیاد رکھی ہے۔ اس کے بنانے میں کوئی بنانے والا اس کا شریک نہیں ہوا ہے اور نہ اس کے پیدا کرنے میں کسی قادر و توانا نے اس کا ہاتھ بٹایا ہے۔
وَ لَوْ ضَرَبْتَ فِیْ مَذَاهِبِ فِكْرِكَ لِتَبْلُغَ غَایَاتِهٖ، مَا دَلَّتْكَ الدَّلَالَةُ اِلَّا عَلٰۤی اَنَّ فَاطِرَ النَّمْلَةِ هُوَ فَاطِرُ النَّخْلَةِ، لِدَقِیْقِ تَفْصِیْلِ كُلِّ شَیْءٍ، وَ غَامِضِ اخْتِلَافِ كُلِّ حَیٍّ. وَ مَا الْجَلِیْلُ وَ اللَّطِیْفُ، وَ الثَّقِیْلُ وَ الْخَفِیْفُ، وَ الْقَوِیُّ وَ الضَّعِیْفُ، فِیْ خَلْقِهٖۤ اِلَّا سَوَآءٌ، وَ كَذٰلِكَ السَّمَآءُ وَ الْهَوَآءُ، وَ الرِّیَاحُ وَ الْمَآءُ.
اگر تم سوچ بچار کی راہوں کو طے کرتے ہوئے اس کی آخری حد تک پہنچ جاؤ تو عقل کی رہنمائی تمہیں بس اس نتیجے پر پہنچائے گی کہ جو چیونٹی کا پیدا کرنے والا ہے وہی کھجور کے درخت کا پیدا کرنے والا ہے، کیونکہ ہر چیز [۲] کی تفصیل لطافت و باریکی لئے ہوئے ہے اور ہر ذی حیات کے مختلف اعضاء میں باریک ہی سا فرق ہے۔ اس کی مخلوقات میں بڑی اور چھوٹی، بھاری اور ہلکی، طاقتور اور کمزور چیزیں یکساں ہیں اور یونہی آسمان، فضا، ہوا اور پانی برابر ہیں۔
فَانْظُرْ اِلَی الشَّمْسِ وَ الْقَمَرِ، وَ النَّبَاتِ وَ الشَّجَرِ، وَ الْمَآءِ وَ الْحَجَرِ، وَاخْتِلَافِ هٰذَا اللَّیْلِ وَ النَّهَارِ، وَ تَفَجُّرِ هٰذِهِ الْبِحَارِ، وَ كَثْرَةِ هٰذِهِ الْجِبَالِ، وَ طُوْلِ هٰذِهِ الْقِلَالِ، وَ تَفَرُّقِ هٰذِهِ اللُّغَاتِ، وَ الْاَلْسُنِ الْمُخْتَلِفَاتِ. فَالْوَیْلُ لِمَنْ جَحَدَ الْمُقَدِّرَ، وَ اَنْكَرَ الْمُدَبِّرَ! زَعَمُوْۤا اَنَّهُمْ كَالنَّبَاتِ مَا لَهُمْ زَارِعٌ، وَ لَا لِاخْتِلَافِ صُوَرِهِمْ صَانِعٌ، وَ لَمْ یَلْجَؤُوْا اِلٰی حُجَّةٍ فِیْمَا ادَّعَوْا، وَ لَا تَحْقِیْقٍ لِّمَاۤ اَوْعَوْا، وَ هَلْ یَكُوْنُ بِنَآءٌ مِّنْ غَیْرِ بَانٍ؟، اَوْ جِنَایَةٌ مِّنْ غَیْرِ جَانٍ؟!.
لہٰذا تم سورج، چاند، سبزے، درخت، پانی اور پتھر کی طرف دیکھو اور اس رات دن کے یکے بعد دیگرے آنے جانے اور ان دریاؤں کے جاری ہونے اور ان پہاڑوں کی بہتات اور ان چوٹیوں کی اچان پر نگاہ دوڑاؤ اور ان نعمتوں اور قسم قسم کی زبانوں کے اختلاف پر نظر کرو۔ اس کے بعد افسوس ہے!ان پر کہ جو قضا و قدر کی مالک ذات اور نظم و انضباط کے قائم کرنے والی ہستی سے انکار کریں۔ انہوں نے تو یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ گھاس پھونس کی طرح خود بخود اُگ آئے ہیں۔ نہ ان کا کوئی بونے والا ہے اور نہ ان کی گوناگوں صورتوں کا کوئی بنانے والا ہے۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں رکھی اور نہ سنی سنائی باتوں کی تحقیق کی ہے۔ (ذرا سوچو تو کہ) کیا کوئی عمارت بغیر بنانے والے کے ہوا کرتی ہے؟اور کوئی جرم بغیر مجرم کے ہوتا ہے؟
وَ اِنْ شِئْتَ قُلْتَ فِی الْجَرَادَةِ، اِذْ خَلَقَ لَهَا عَیْنَیْنِ حَمْرَاوَیْنِ، وَ اَسْرَجَ لَهَا حَدَقَتَیْنِ قَمْرَاوَیْنِ، وَ جَعَلَ لَهَا السَّمْعَ الْخَفِیَّ، وَ فَتَحَ لَهَا الْفَمَ السَّوِیَّ، وَ جَعَلَ لَهَا الْحِسَّ الْقَوِیَّ، وَ نَابَیْنِ بِهِمَا تَقْرِضُ، وَ مِنْجَلَیْنِ بِهِمَا تَقْبِضُ، یَرْهَبُهَا الزُّرَّاعُ فِیْ زَرْعِهِمْ، وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ذَبَّهَا، وَ لَوْ اَجْلَبُوْا بِجَمْعِهِمْ، حَتّٰی تَرِدَ الْحَرْثَ فِیْ نَزَوَاتِهَا، وَ تَقْضِیَ مِنْهُ شَهَوَاتِهَا، وَ خَلْقُهَا كُلُّهٗ لَا یَكُوْنُ اِصْبَعًا مُّسْتَدِقَّةً.
اگر چاہو تو (چیونٹی کی طرح) ٹڈی [۳] کے متعلق بھی کچھ کہو کہ اس کیلئے لال بھبوکا دو آنکھیں پیدا کیں اور اس کی آنکھوں کے چاند سے دونوں حلقوں کے چراغ روشن کئے اور اس کیلئے بہت ہی چھوٹے چھوٹے کان بنائے اور مناسب و معتدل منہ کا شگاف بنایا اور اس کے حس کو قوی اور تیز قرار دیا اور ایسے دو دانت بنائے کہ جن سے وہ (پتیوں کو) کاٹتی ہے اور درانتی کی طرح کے دو پیر دیئے کہ جن سے وہ (گھاس پات کو) پکڑتی ہے۔ کاشتکار اپنی زراعت کے بارے میں اس سے ہراساں رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے جتھوں کو سمیٹ لیں، جب بھی اس ٹڈی دل کا ہنکانا ان کے بس میں نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ جست و خیز کرتا ہوا ان کی کھیتیوں پر ٹوٹ پڑتا ہے اور ان سے اپنی خواہشوں کو پورا کر لیتا ہے۔ حالانکہ اس کا جسم ایک باریک انگلی کے بھی برابر نہیں ہوتا۔
فَتَبَارَكَ اللهُ الَّذِیْ یَسْجُدُ لَهٗ ﴿مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا ﴾، وَ یُعَفِّرُ لَهٗ خَدًّا وَّ وَجْهًا، وَ یُلْقِیْ اِلَیْهِ بِالْطَّاعَةِ سِلْمًا وَّ ضَعْفًا، وَ یُعْطِیْ لَہُ الْقِیَادَ رَهْبَةً وَّ خَوْفًا!.
پاک ہے وہ ذات کہ جس کے سامنے آسمان و زمین میں جو کوئی بھی ہے خوشی یا مجبوری سے بہر صورت سجدہ میں گرا ہوا ہے اور اس کیلئے رخسار اور چہرے کو خاک پر مل رہا ہے اور عجز و انکسار سے اس کے آگے سرنگوں ہے اور خوف و دہشت سے اپنی باگ ڈور اسے سونپے ہوئے ہے۔
فَالطَّیْرُ مُسَخَّرَةٌ لِاَمْرِهٖ، اَحْصٰی عَدَدَ الرِّیْشِ مِنْهَا وَ النَّفَسَ، وَاَرْسٰی قَوَآئِمَهَا عَلَی النَّدٰی وَ الْیَبَسِ، وَ قَدَّرَ اَقْوَاتَهَا، وَ اَحْصٰۤی اَجْنَاسَهَا، فَهٰذَا غُرَابٌ وَّ هٰذَا عُقَابٌ، وَ هٰذَا حَمَامٌ وَّ هٰذَا نَعَامٌ، دَعَا كُلَّ طَآئِرٍۭ بِاسْمِهٖ، وَ كَفَلَ لَهٗ بِرِزْقِهٖ. وَ اَنْشَاَ ﴿السَّحَابَ الثِّقَالَۚ۝﴾، فَاَهْطَلَ دِیَمَهَا، وَ عَدَّدَ قِسَمَهَا، فَبَلَّ الْاَرْضَ بَعْدَ جُفُوْفِهَا، وَ اَخْرَجَ نَبْتَهَا بَعْدَ جُدُوْبِهَا.
پرندے اس کے حکم (کی زنجیروں)میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ ان کے پروں اور سانسوں کی گنتی تک کو جانتا ہے اور (ان میں سے کچھ کے) پیر تری پر اور (کچھ کے)خشکی پر جما دیئے ہیں اور ان کی روزیاں معین کر دی ہیں اور ان کے انواع واقسام پر احاطہ رکھتا ہے کہ یہ کوا ہے اور یہ عقاب، یہ کبوتر ہے اور یہ شتر مرغ۔ اس نے ہر پرندے کو اس کے نام پر دعوت (وجود) دی اور ان کی روزی کا ذمہ لیا اور یہ بھاری بوجھل بادل پیدا کئے کہ جن سے موسلا دھار بارشیں برسائیں اور حصہ رسدی مختلف (سر زمینوں پر) انہیں بانٹ دیا اور زمین کو اس کے خشک ہو جانے کے بعد تر بتر کردیا اور بنجر ہونے کے بعد اس سے (لہلہاتا ہوا) سبزہ اُگایا۔

۱؂’’چیونٹی‘‘ بظاہر ایک حقیر سی مخلوق ہے اور جسامت کے اعتبار سے نہایت چھوٹی مگر قدرت نے شعور و احساس کی اتنی قوتیں اس میں ودیعت کی ہیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کے حسیات خصوصاً قوتِ شامہ بہت تیز ہوتی ہے۔ جہاں کہیں خوراک ہو یہ اپنے حاسہ کی مدد سے فوراً وہاں پہنچ جاتی ہے اور اپنے جسم سے بیس گنا زائد وزن اٹھا لیتی ہے اور جس چیز کو اکیلے نہیں اٹھا سکتی اسے اٹھانے کیلئے دوسری چیونٹیوں کو اطلاع کر دیتی ہے اور وہ سب مل کر اسے اٹھا لے جاتی ہیں۔ اگر دیوار یا بلندی پر چڑھنے سے بوجھ گر پڑتا ہے تو جتنی مرتبہ گرے اسے اٹھا نے کیلئے پلٹتی ہیں۔ دھوپ ہو یا سایہ، گرمی ہو یا سردی، نہ ہمت ہارتی ہیں اور نہ محنت سے جی چراتی ہیں، ہمہ وقت طلب و تلاش میں لگی رہتی ہيں۔
یوں تو گرمی و سردی میں یکساں سعی و کاوش کا مظاہرہ کرتی ہیں مگر گرمیوں میں زیادہ سرگرمِ عمل رہتی ہیں تا کہ سردی اور برسات کیلئے اپنے بلوں میں اتنا ذخیرہ فراہم کر لیں جس سے ان کی گزر بسر ہو سکے۔ ان بلوں میں ٹیڑھے میڑھے راستے بناتی ہیں تا کہ بارش کے پانی سے تحفظ ہو سکے۔ اس غذا کی جمع آوری کے ساتھ اس کے بچاؤ کی بھی تمام تدابیر عمل میں لاتی ہیں۔ چنانچہ جب اس کے خراب یا متعفن ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اسے بلوں سے باہر نکال کر ہوا میں پھیلا دیتی ہیں اور سوکھ جانے کے بعد اسے پھر بلوں میں منتقل کر دیتی ہیں۔ یہ نقل و حمل عموماً چاندنی راتوں میں کرتی ہیں تا کہ دن کے وقت گزرنے والے کی وجہ سے ذخیرہ پامال نہ ہو اور اتنی روشنی بھی رہے کے کام جاری رکھا جا سکے اور اگر زمین كى تری و رطوبت کی وجہ سے دانوں سے کونپلیں پھوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو ہر دانے کے دو ٹکڑے کر دیتی ہیں اور دھنیے کی یہ خاصیت ہے کہ اگر اس کے دو ٹکڑے ہو جائیں تو بھی اگ آتا ہے اس لئے اس کے چار ٹکڑے کر دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ اہتمام بھی کرتی ہیں کہ دانوں کی سطح پر بھوسے کے تنکے بچھا دیتی ہیں تا کہ زمین کے اندر کی نمی سے محفوظ رہیں۔
چیونٹیوں میں نظم و ضبط سے رہنے، مل جل کر کام کرنے اور ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کا بھرپور جذبہ ہوتا ہے۔ ان میں کچھ کارکن ہوتی ہیں جو خوراک فراہم کرتی ہیں اور کچھ حفاظتی فریضہ انجام دیتی ہیں اور ایک ملکہ ہوتی ہے جو نگران کار ہوتی ہے۔ غرض یہ تمام کام تقسیم عمل اور نظم و ضبط کے تحت انجام پاتے ہیں۔
۲؂مطلب یہ ہے کہ اگر کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کا جائزہ لیا جائے تو وہ اپنے اندر ان تمام چیزوں کو سمیٹے ہوئے ہو گی جو بڑی سے بڑی چیز کے اندر پائی جاتی ہیں اور ہر ایک میں قدرت کی صنعت طرازی و کارسازی کی جھلک یکساں اور ہر ایک کی نسبت اس کی قوت و توانائی کی طرف برابر ہوگی۔ خواہ وہ چیونٹی کی طرح چھوٹی ہو، یا درخت خرما کی طرح بڑی۔ ایسا نہیں کہ چھوٹی چیز کو بنانا سہل اور بڑی چیز کو پیدا کرنا اس کیلئے مشکل ہو۔ کیونکہ صورت، رنگ، حجم اور مقدار کا اختلاف صرف اس کی حکمت و تدبیر کی کارفرمائی کی بنا پر ہے، مگر اصل خلقت کے اعتبار سے ان میں کوئی تفاوت نہیں۔ لہٰذا خلقت و آفرنیش کی یہ یک رنگی اس کے صانع کی وحدت و یکتائی کی دلیل ہے۔
’’ٹڈی‘‘ ایک مختصر جسامت کا جانور ہے۔ بچپنے میں اس کے پیر چھوٹے، ٹانگیں لمبی، سر بڑا اور دُم چھوٹی ہوتی ہے۔ جب بچپنے کا دور گزر جاتا ہے تو پر بڑے اور جسم کی لمبائی زیادہ ہو جاتی ہے۔ خوراک کی تلاش میں جتھا بنا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پرواز کرتا رہتا ہے۔ اس پرواز سے اس کے جسم اور اعصاب پر خوشگوار اثر پڑتا ہے اور جسم قوی اور اعصاب مضبوط ہو جاتے ہیں، لیکن یہ دور اس کیلئے انتہائی پریشان کن ہوتا ہے، کیونکہ بھوک کی شدّت اسے کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتی۔ چنانچہ جب ٹڈی دل مل کر پرواز کرتا ہے تو جہاں کہیں سبزہ نظر آتا ہے بے تحاشا ٹوٹ پڑتا ہے اور مادہ اپنی دُم سے زمین میں سوراخ کر کے انڈے چھوڑ جاتی ہے جن سے بچے نکلتے ہیں اور جب ان کے جسم وجان میں توانائی آتی ہے تو اُڑنے لگتے ہیں۔
۳؂ان کا پھیلاؤ کبھی کبھی دو ہزار مربع میل تک پہنچ جاتا ہے اور ایک دن میں بارہ سو میل کی مسافت طے کر لیتے ہیں اور جدھر سے ہو کر گزرتے ہیں کھڑی کھیتیوں اور سبزہ زاروں کو اس طرح چاٹ جاتے ہیں کہ روئیدگی کا نام و نشان تک نہیں رہتا۔ یہ پرواز گرم خشک موسم میں ہوتی ہے اور جب تک موسم ساز گار رہتا ہے پرواز جاری رہتی ہے۔ جب سخت سردی یا تیز آندھی انہیں منتشر کر دیتی ہے تو جماعتی زندگی کی کشمکش سے آزاد ہو کر تنہا رہ جاتے ہیں۔ یہ تنہائی کی زندگی ان کیلئے بڑی مطمئن زندگی ہوتی ہے۔ نہ انہیں بھوک ستاتی ہے اور نہ پرواز کی تعب و مشقت نڈھال کرتی ہے۔