فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے۔ حکمت 65
(١٨٤) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۸۴)
فِی التَّوْحِيْدِ
یہ خطبہ توحید کے متعلق ہے
وَ تَجْمَعُ هٰذِهِ الْخُطْبَةُ مِنْ اُصُوْلِ الْعِلْمِ مَا لَا تَجْمَعُهٗ خُطْبَةٌ (غَیْرَھَا)
اور علم و معرفت کی اتنی بنیادی باتوں پر مشتمل ہے کہ جن پر کوئی دوسرا خطبہ حاوی نہیں ہے:
مَا وَحَّدَهٗ مَنْ كَیَّفَهٗ، وَ لَا حَقِیْقَتَهٗۤ اَصَابَ مَنْ مَّثَّلَهٗ، وَ لَاۤ اِیَّاهُ عَنٰی مَنْ شَبَّهَهٗ، وَ لَا صَمَدَهٗ مَنْ اَشَارَ اِلَیْهِ وَ تَوَهَّمَهٗ. كُلُّ مَعْرُوْفٍۭ بِنَفْسِهٖ مَصْنُوْعٌ، وَ كُلُّ قَآئِمٍ فِیْ سِوَاهُ مَعْلُوْلٌ.
جس نے اسے مختلف کیفیتوں سے متصف کیا اس نے اسے یکتا نہیں سمجھا، جس نے اس کا مثل ٹھہرایا اس نے اس کی حقیقت کو نہیں پایا، جس نے اسے کسی چیز سے تشبیہ دی اس نے اس کا قصد نہیں کیا، جس نے اسے قابل اشارہ سمجھا اور اپنے تصور کا پابند بنایا اس نے اس کا رخ نہیں کیا۔ جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہو گا اور جو دوسرے کے سہارے پر قائم ہو وہ علت کا محتاج ہو گا۔
فَاعِلٌ لَّا بِاضْطِرَابِ اٰلَةٍ، مُقَدِّرٌ لَّا بِجَوْلِ فِكْرَةٍ، غَنِیٌّ لَّا بِاسْتِفَادَةٍ. لَا تَصْحَبُهُ الْاَوْقَاتُ، وَ لَا تَرْفُدُهُ الْاَدَوَاتُ، سَبَقَ الْاَوْقَاتَ كَوْنُهٗ، وَ الْعَدَمَ وُجُوْدُهٗ، وَ الْاِبْتِدَآءَ اَزَلُهٗ.
وہ فاعل ہے بغیر آلات کو حرکت میں لائے۔ وہ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا ہے، بغیر فکر کی جولانی کے۔ وہ تونگر و غنی ہے بغیر دوسروں سے استفادہ کئے۔ نہ زمانہ اس کا ہم نشین اور نہ آلات اس کے معاون و معین ہیں۔ اس کی ہستی زمانہ سے پیشتر، اس کا وجود عدم سے سابق اور اس کی ہمیشگی نقطۂ آغاز سے بھی پہلے سے ہے۔
بِتَشْعِیْرِهِ الْمَشَاعِرَ عُرِفَ اَنْ لَّا مَشْعَرَ لَهٗ، وَ بِمُضَادَّتِهٖ بَیْنَ الْاُمُوْرِ عُرِفَ اَنْ لَّا ضِدَّ لَهٗ، وَ بِمُقَارَنَتِهِ بَیْنَ الْاَشْیَآءِ عُرِفَ اَنْ لَّا قَرِیْنَ لَهٗ. ضَادَّ النُّوْرَ بِالظُّلْمَةِ، وَ الْوُضُوْحَ بِالْبُهْمَةِ، وَ الْجُمُوْدَ بِالْبَلَلِ، وَ الْحَرُوْرَ بِالصَّرَدِ. مُؤَلِّفٌۢ بَیْنَ مُتَعَادِیَاتِهَا، مُقَارِنٌۢ بَیْنَ مُتَبَایِنَاتِهَا، مُقَرِّبٌۢ بَیْنَ مُتَبَاعِدَاتِهَا، مُفَرِّقٌۢ بَیْنَ مُتَدَانِیَاتِهَا.
اس نے جو احساس و شعور کی قوتوں کو ایجاد کیا اسی سے معلوم ہوا کہ وہ خود حواس و آلات شعور نہیں رکھتا اور چیزوں میں ضدیت قرار دینے سے معلوم ہوا کہ اس کی ضد نہیں ہو سکتی اور چیزوں کو جو اس نے ایک دوسرے کے ساتھ رکھا ہے اسی سے معلوم ہوا کہ اس کا کوئی ساتھی نہیں۔ اس نے نور کو ظلمت کی، روشنی کو اندھیرے کی، خشکی کو تری کی اور گرمی کو سردی کی ضد قرار دیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کی دشمن چیزوں کو ایک مرکز پر جمع کرنے والا، متضاد چیزوں کو ملانے والا، ایک دوسرے سے دور کی چیزوں کو باہم قریب لانے والا اور باہم پیوستہ چیزوں کو الگ الگ کرنے والا ہے۔
لَا یُشْمَلُ بِحَدٍّ، وَ لَا یُحْسَبُ بِعَدٍّ، وَ اِنَّمَا تَحُدُّ الْاَدَوَاتُ اَنْفُسَهَا، وَ تُشِیْرُ الْاٰلَاتُ اِلٰی نَظَآئِرِهَا، مَنَعَتْهَا »مُنْذُ« الْقِدَمِیَّةَ، وَ حَمَتْهَا »قَدُ« الْاَزَلِیَّةَ، وَ جَنَّبَتْهَا »لَوْلَا« التَّكْمِلَةَ! بِهَا تَجَلّٰی صَانِعُهَا لِلْعُقُوْلِ، وَ بِهَا امْتَنَعَ عَنْ نَّظَرِ الْعُیُوْنِ.
وہ کسی حد میں محدود نہیں اور نہ گننے سے شمار میں آتا ہے۔ جسمانی قویٰ تو جسمانی ہی چیزوں کو گھیرا کرتے ہیں اور اپنے ہی ایسوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ انہیں لفظ ’’منذ‘‘ نے قدیم ہو نے سے روک دیا ہے اور لفظِ ’’قد‘‘ نے ہمیشگی سے منع کر دیا ہے اور لفظ ’’لولا‘‘ [۱] نے کمال سے ہٹا دیا ہے۔ انہی اعضاء و جوارح اور حواس و مشاعر کے ذریعہ ان کا موجد عقلوں کے سامنے جلوہ گر ہوا ہے اور ان ہی کے تقاضوں کے سبب سے آنکھوں کے مشاہدہ سے بری ہو گیا ہے۔
لَا یَجْرِیْ عَلَیْهِ السُّكُوْنُ وَ الْحَرَكَةُ، وَ كَیْفَ یَجْرِیْ عَلَیْهِ مَا هُوَ اَجْرَاهُ، وَ یَعُوْدُ فِیْهِ مَا هُوَ اَبْدَاهُ، وَ یَحْدُثُ فِیْهِ مَا هُوَ اَحْدَثَةٗ! اِذًا لَّتَفَاوَتَتْ ذَاتُهٗ، وَ لَتَجَزَّاَ كُنْهُهٗ، وَ لَامْتَنَعَ مِنَ الْاَزَلِ مَعْنَاهُ، وَ لَكَانَ لَهٗ وَرَآءٌ اِذْ وُجِدَ لَهٗ اَمَامٌ، وَ لَالْتَمَسَ التَّمَامَ اِذْ لَزِمَهٗ النُّقْصَانُ. وَ اِذًا لَّقَامَتْ اٰیَةُ الْمَصْنُوْعِ فِیْهِ، وَ لَتَحَوَّلَ دَلِیْلًۢا بَعْدَ اَنْ كَانَ مَدْلُوْلًا عَلَیْهِ، وَ خَرَجَ بِسُلْطَانِ الْاِمْتِنَاعِ مِنْ اَنْ یُّؤَثِّرَ فِیْهِ مَا یُؤثِّرُ فِیْ غَیْرِهِ. الَّذِیْ لَا یَحُوْلُ وَ لَا یَزُوْلُ، وَ لَا یَجُوْزُ عَلَیْهِ الْاُفُوْلُ.
حرکت و سکون اس پر طاری نہیں ہو سکتے۔ بھلا جو چیز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو، وہ اس پر کیونکر طاری ہو سکتی ہے؟ اور جو چیز پہلے پہل اسی نے پیدا کی ہے وہ اس کی طرف عائد کیونکر ہو سکتی ہے؟ اور جس چیز کو اس نے پیدا کیا ہو وہ اس میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس کی ذات تغیر پذیر قرار پائے گی اور اس کی ہستی قابل تجزیہ ٹھہرے گی اور اس کی حقیقت ہمیشگی و دوام سے علیحدہ ہو جائے گی۔ اگر اس کیلئے سامنے کی جہت ہوتی تو پیچھے کی سمت بھی ہوتی اور اگر اس میں کمی آتی تو وہ اس کی تکمیل کا محتاج ہوتا اور اس صورت میں اس کے اندر مخلوق کی علامتیں آ جاتیں، اور جبکہ ساری چیزیں اس کی ہستی کی دلیل تھیں اس صورت میں وہ خود کسی خالق کے وجود کی دلیل بن جاتا۔ حالانکہ وہ اس امر مسلّمہ کی رو سے کہ اس میں مخلوق کی صفتوں کا ہونا ممنوع ہے، اس سے بری ہے کہ اس میں وہ چیز اثر انداز ہو جو ممکنات میں اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ ادلتا بدلتا نہیں، نہ زوال پذیر ہوتا ہے، نہ غروب ہونا اس کیلئے روا ہے۔
لَمْ یَلِدْ فَیَكُوْنَ مَوْلُوْدًا، وَ لَمْ یُوْلَدْ فَیَصِیْرَ مَحْدُوْدًا، جَلَّ عَنِ اتِّخَاذِ الْاَبْنَآءِ، وَ طَهُرَ عَنْ مُّلَامَسَةِ النِّسَآءِ. لَا تَنَالُهُ الْاَوْهَامُ فَتُقَدِّرَهٗ، وَ لَا تَتَوَهَّمُهُ الْفِطَنُ فَتُصَوِّرَهٗ، وَ لَا تُدْرِكُهُ الْحَوَاسُّ فَتَحُسَّهٗ، وَ لَا تَلْمِسُهُ الْاَیْدِیْ فَتَمَسَّهٗ.
اس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے، ورنہ محدود ہو کر رہ جائے گا۔ وہ آل اولاد رکھنے سے بالاتر اور عورتوں کو چھونے سے پاک ہے۔ تصوّرات اسے پا نہیں سکتے کہ اس کا اندازہ ٹھہرا لیں اور عقلیں اس کا تصور نہیں کر سکتیں کہ اس کی کوئی صورت مقرر کر لیں، حواس اس کا ادراک نہیں کر سکتے کہ اسے محسوس کر لیں اور ہاتھ اس سے مس نہیں ہو سکتے کہ اسے چھو لیں۔
لَا یَتَغَیَّرُ بِحَالٍ، وَ لَا یَتَبَدَّلُ فِی الْاَحْوَالِ، وَ لَا تُبْلِیْهِ اللَّیَالِیْ وَ الْاَیَّامُ، وَ لَا یُغَیِّرُهُ الضِّیَآءُ وَ الظَّلَامُ، وَ لَا یُوْصَفُ بِشَیءٍ مِّنَ الْاَجْزَآءِ، وَ لَا بِالْجَوَارِحِ وَ الْاَعْضَآءِ، وَ لَا بِعَرَضٍ مِّنَ الْاَعْرَاضِ، وَ لَا بِالْغَیْرِیَّةِ وَ الْاَبْعَاضِ. وَ لَا یُقَالُ لَهٗ حَدٌّ وَّ لَا نِهَایَةٌ، وَ لَا انْقِطَاعٌ وَّ لَا غَایَةٌ، وَ لَاۤ اَنَّ الْاَشْیَآءَ تَحْوِیْهِ فَتُقِلَّهٗ اَوْ تُهْوِیَهٗ، اَوْ اَنَّ شَیْئًا یَّحْمِلُهٗ، فَیُمِیْلَهٗ اَوْ یُعَدِّلَهٗ. لَیْسَ فِی الْاَشْیَآءِ بِوَالِجٍ، وَ لَا عَنْهَا بِخَارِجٍ.
وہ کسی حال میں بدلتا نہیں اور نہ مختلف حالتوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ نہ شب و روز اسے کہنہ کرتے ہیں، نہ روشنی و تاریکی اسے متغیر کرتی ہے۔ اسے اجزا و جوارح، صفات میں سے کسی صفت اور ذات کے علاوہ کسی بھی چیز اور حصوں سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیلئے کسی حد اور اختتام اور زوال پذیری اور انتہا کو کہا نہیں جا سکتا اور نہ یہ کہ چیزیں اس پر حاوی ہیں کہ خواہ اسے بلند کریں اور خواہ پست، یا چیزیں اسے اٹھائے ہوئے ہیں کہ چاہے اسے اِدھر اُدھر موڑیں اور چاہے اسے سیدھا رکھیں۔ نہ وہ چیزوں کے اندر ہے اور نہ ان سے باہر۔
یُخْبِرُ لَا بِلِسَانٍ وَّ لَهَوَاتٍ، وَ یَسْمَعُ لَا بِخُرُوْقٍ وَّ اَدَوَاتٍ، یَقُوْلُ وَ لَا یَلْفِظُ، وَ یَحْفَظُ وَ لَا یَتَحَفَّظُ، وَ یُرِیْدُ وَ لَا یُضْمِرُ. یُحِبُّ وَ یَرْضٰی مِنْ غَیْرِ رِقَّةٍ، وَ یُبْغِضُ وَ یَغْضَبُ مِنْ غَیْرِ مَشَقَّةٍ.
وہ خبر دیتا ہے بغیر زبان اور تالو جبڑے کی حرکت کے، وہ سنتا ہے بغیر کانوں کے سوراخوں اور آلات سماعت کے، وہ بات کرتا ہے بغیر تلفظ کے، وہ ہر چیز کو یاد رکھتا ہے بغیر یاد کرنے کی زحمت کے، وہ ارادہ کرتا ہے بغیر قلب اور ضمیر کے، وہ دوست رکھتا ہے اور خوشنود ہوتا ہے بغیر رقت طبع کے، وہ دشمن رکھتا ہے اور غضبناک ہوتا ہے بغیر غم و غصہ کی تکلیف کے۔
یَقُوْلُ لِمَنْ اَرَادَ كَوْنَهٗ: ﴿كُنْ فَیَكُوْنُ۝﴾، لَا بِصَوْتٍ یَّقْرَعُ، وَ لَا بِنِدَآءٍ یُّسْمَعُ، وَ اِنَّمَا كَلَامُهٗ سُبْحَانَهٗ فِعْلٌ مِّنْهُ اَنْشَاَهُ، وَ مِثْلُهٗ لَمْ یَكُنْ مِّنْ قَبْلِ ذٰلِكَ كَآئِنًا، وَ لَوْ كَانَ قَدِیْمًا لَّكَانَ اِلٰهًا ثَانِیًا.
جسے پیدا کرنا چاہتا ہے اسے ’’ہو جا!‘‘ کہتا ہے جس سے وہ ہو جاتی ہے، بغیر کسی ایسی آواز کے جو کان (کے پردوں) سے ٹکرائے اور بغیر ایسی صدا کے جو سنی جا سکے۔ بلکہ اللہ سبحانہ کا کلام بس اس کا ایجاد کردہ فعل ہے اور اس طرح کا کلام پہلے سے موجود نہیں ہوسکتا اور اگر وہ قدیم ہوتا تو دوسرا خدا ہوتا۔
لَا یُقَالُ: كَانَ بَعْدَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ، فَتَجْرِیَ عَلَیْهِ الصِّفَاتُ الْمُحْدَثَاتُ، وَ لَا یَكُوْنُ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗ فَصْلٌ، وَ لَا لَهٗ عَلَیْهَا فَضْلٌ، فَیَسْتَوِیَ الصَّانِعُ وَ الْمَصْنُوْعُ، وَ یَتَكَافَاَ المُبْتَدَعُ وَالْبَدِیْعُ.
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عدم کے بعد وجود میں آیا ہے کہ اس پر حادث صفتیں منطبق ہو نے لگیں اور اس میں اور مخلوقات میں کوئی فرق نہ رہے اور نہ اسے اس پر کوئی فوقیت و برتری رہے کہ جس کے نتیجہ میں خالق و مخلوق ایک سطح پر آ جائیں اور صانع و مصنوع برابر ہو جائیں۔
خَلَقَ الْخَلَآئِقَ عَلٰی غَیْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَیْرِهٖ، وَ لَمْ یَسْتَعِنْ عَلٰی خَلْقِهَا بِاَحَدٍ مِّنْ خَلْقِهٖ. وَ اَنْشَاَ الْاَرْضَ فَاَمْسَكَهَا مِنْ غَیْرِ اشْتِغَالٍ، وَ اَرْسَاهَا عَلٰی غَیْرِ قَرَارٍ، وَ اَقَامَهَا بِغَیْرِ قَوَآئِمَ، وَ رَفَعَهَا بِغَیْرِ دَعَآئِمَ، وَ حَصَّنَهَا مِنَ الْاَوَدِ وَ الْاِعْوِجَاجِ، وَ مَنَعَهَا مِنَ التَّهَافُتِ وَ الْاِنْفِرَاجِ، اَرْسٰۤی اَوْتَادَهَا، وَ ضَرَبَ اَسْدَادَهَا، وَ اسْتَفَاضَ عُیُوْنَهَا، وَ خَدَّ اَوْدِیَتَهَا، فَلَمْ یَهِنْ مَا بَنَاهُ، وَ لَا ضَعُفَ مَا قَوَّاهُ.
اس نے مخلوقات کو بغیر کسی ایسے نمونہ کے پیدا کیا کہ جو اس سے پہلے کسی دوسرے نے قائم کیا ہو اور اس کے بنانے میں اس نے مخلوقات میں سے کسی ایک سے بھی مدد نہیں چاہی۔ وہ زمین کو وجود میں لایا اور بغیر اس کام میں الجھے ہوئے اسے برابر روکے تھامے رہا اور بغیر کسی چیز پر ٹکائے ہوئے اسے برقرار کر دیا اور بغیر ستونوں کے اس نے قائم اور بغیر کھمبوں کے اسے بلند کیا، کجی اور جھکاؤ سے اسے محفوظ کر دیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرنے اور پھٹنے سے اسے بچائے رہا۔ اس کے پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑا اور چٹانوں کو مضبوطی سے نصب کیا، اس کے چشموں کو جاری اور پانی کی گزر گاہوں کو شگافتہ کیا۔ اس نے جو بنایا اس میں کوئی سستی نہ آئی اور جسے مضبوط کیا اس میں کمزوری نہیں پیدا ہوئی۔
هُوَ الظّاهِرُ عَلَیْهَا بِسُلْطَانِهٖ وَ عَظَمَتِهٖ، وَ هُوَ الْبَاطِنُ لَهَا بِعِلْمِهٖ وَ مَعْرِفَتِهٖ، وَ الْعَالِیْ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ مِّنهَا بِجَلَالِهٖ وَ عِزَّتِهِ. لَا یُعْجِزُهُ شَیْءٌ مِّنْهَا طَلَبَهٗ، وَ لَا یَمْتَنِعُ عَلَیْهِ فَیَغْلِبَهٗ، وَ لَا یَفُوْتُهُ السَّرِیْعُ مِنْهَا فَیَسْبِقَهٗ، وَ لَا یَحْتَاجُ اِلٰی ذِیْ مَالٍ فَیَرْزُقَهٗ.
وہ اپنی عظمت و شاہی کے ساتھ زمین پر غالب، علم و دانائی کی بدولت اس کے اندرونی رازوں سے واقف اور اپنے جلال و عزت کے سبب سے اس کی ہر چیز پر چھایا ہوا ہے۔ وہ جس چیز کا اس سے خواہاں ہوتا ہے وہ اس کی دسترس سے باہر نہیں ہو سکتی اور نہ اس سے روگردانی کرکے اس پر غالب آسکتی ہے اور نہ کوئی تیزرَو اس کے قبضہ سے نکل سکتا ہے کہ اس سے بڑھ جائے اور نہ وہ کسی مالدار کا محتاج ہے کہ وہ اسے روزی دے۔
خَضَعَتِ الْاَشْیَآءُ لَهٗ، وَ ذَلَّتْ مُسْتَكِیْنَةً لِّعَظَمَتِهٖ، لَا تَسْتَطِیْعُ الْهَرَبَ مِنْ سُلْطَانِهٖ اِلٰی غَیْرِهٖ فَتَمْتَنِعَ مِنْ نَّفْعِهٖ وَ ضَرِّهٖ، وَ لَا كُفْؤَ لَهٗ فَیُكَافِئَهٗ، وَ لَا نَظِیْرَ لَهٗ فَیُسَاوِیَهٗ. هُوَ الْمُفْنِیْ لَهَا بَعْدَ وُجُوْدِهَا، حَتّٰی یَصِیْرَ مَوْجُوْدُهَا كَمَفْقُوْدِهَا. وَ لَیْسَ فَنَآءُ الدُّنْیَا بَعْدَ ابْتِدَاعِهَا بِاَعْجَبَ مِنْ اِنْشَآئِهَا وَ اخْتِرَاعِهَا، وَ كَیفَ وَ لَوِ اجْتَمَعَ جَمِیْعُ حَیَوَانِهَا مِنْ طَیْرِهَا وَ بَهَآئِمِهَا، وَ مَا كَانَ مِنْ مُّرَاحِهَا وَ سَآئِمِهَا، وَ اَصْنَافِ اَسْنَاخِهَا وَ اَجْنَاسِهَا، وَ مُتَبَلِّدَةِ اُمَمِهَا وَ اَكْیَاسِهَا، عَلٰۤی اِحْدَاثِ بَعُوْضَةٍ، مَا قَدَرَتْ عَلٰۤی اِحْدَاثِهَا، وَ لَا عَرَفَتْ كَیْفَ السَّبِیْلُ اِلٰی اِیْجَادِهَا، وَ لَتَحَیَّرَتْ عُقُوْلُهَا فِیْ عِلْمِ ذٰلِكَ وَ تَاهَتْ، وَ عَجَزَتْ قُوَاهَا وَ تَنَاهَتْ، وَ رَجَعَتْ خَاسِئَةً حَسِیْرَةً، عَارِفَةًۢ بِاَنَّهَا مَقْهُوْرَةٌ، مُقِرَّةًۢ بِالْعَجْزِ عَنْ اِنْشَآئِهَا، مُذْعِنَةً بِالضَّعْفِ عَنْ اِفْنَآئِهَا!.
تمام چیزیں اس کے سامنے عاجز اور اس کی بزرگی و عظمت کے آگے ذلیل و خوار ہیں۔ اس کی سلطنت (کی وسعتوں) سے نکل کر کسی اور طرف بھاگ جانے کی ہمت نہیں رکھتیں کہ اس کے جود و عطا سے (بے نیاز) اور اس کی گرفت سے اپنے کو محفوظ سمجھ لیں۔ نہ اس کا کوئی ہمسر ہے جو اس کے برابر اُتر سکے، نہ اس کا کوئی مثل و نظیر ہے جو اُس سے برابری کر سکے۔ وہی ان چیزوں کو وجود کے بعد فنا کرنے والا ہے، یہاں تک کہ موجود چیزیں ان چیزوں کی طرح ہو جائیں کہ جو کبھی تھیں ہی نہیں اور یہ دنیا کو پیدا کرنے کے بعد نیست و نابود کرنا اس کے شروع شروع وجود میں لانے سے زیادہ تعجب خیز (و دشوار) نہیں اور کیونکر ایسا ہوسکتا ہے جبکہ تمام حیوان، وہ پرندے ہوں یا چوپائے، رات کو گھروں کی طرف پلٹ کر آنے والے ہوں یا چراگاہوں میں چرنے والے، جس نوع کے بھی ہوں اور جس قسم کے ہوں وہ اور تمام آدمی، کودن و غبی صنف سے ہوں یا زیرک و ہوشیار، سب مل کر اگر ایک مچھر کو پیدا کرنا چاہیں تو وہ اس کے پیدا کرنے پر قادر نہ ہوں گے اور نہ یہ جان سکیں گے کہ اس کے پیدا کرنے کی کیا صورت ہے اور اس جاننے کے سلسلہ میں ان کی عقلیں حیران و سرگرداں اور قوتیں عاجز و درماندہ ہو جائیں گی اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ شکست خور دہ ہیں اور یہ اقرار کرتے ہوئے کہ وہ اس کی ایجاد سے درماندہ ہیں اور یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ وہ اس کے فنا کرنے سے بھی عاجز ہیں، خستہ و نامراد ہو کر پلٹ آئیں گے۔
وَ اِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهٗ یَعُوْدُ بَعْدَ فَنَآءِ الدُّنْیَا وَحْدَهٗ لَا شَیْءَ مَعَهٗ، كَمَا كَانَ قَبْلَ ابْتِدَآئِهَا، كَذٰلِكَ یَكُوْنُ بَعْدَ فَنَآئِهَا، بِلَا وَقْتٍ وَّ لَا مَكَانٍ، وَ لَا حِیْنٍ وَّ لَا زَمَانٍ، عُدِمَتْ عِنْدَ ذٰلِكَ الْاٰجَالُ وَ الْاَوْقَاتُ، وَ زَالَتِ السِّنُوْنَ وَ السَّاعَاتُ، فَلَا شَیْءَ اِلَّا الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ الَّذِیْ اِلَیْهِ مَصِیْرُ جَمِیْعِ الْاُمُوْرِ، بِلَا قُدْرَةٍ مِّنْهَا كَانَ ابْتِدَآءُ خَلْقِهَا، وَ بِغَیْرِ امْتِنَاعٍ مِّنْهَا كَانَ فَنَآؤُهَا، وَ لَوْ قَدَرَتْ عَلَی الْاِمْتِنَاعِ لَدَامَ بَقَآؤُهَا.
بلا شبہ اللہ سبحانہ دنیا کے مٹ مٹا جانے کے بعد ایک اکیلا ہو گا، کوئی چیز اس کے ساتھ نہ ہو گی۔ جس طرح کہ دنیا کی ایجاد و آفرینش سے پہلے تھا، یونہی اس کے فنا ہو جانے کے بعد بغیر وقت و مکان اور ہنگام و زمان کے ہو گا۔ اس وقت مدتیں اور اوقات سال اور گھڑیاں سب نابود ہوں گی سوائے اس خدائے واحد و قہار کے جس کی طرف تمام چیزوں کی باز گشت ہے، کوئی چیز باقی نہ رہے گی۔ان کی آفرینش کی ابتدا ان کے اختیار و قدرت سے باہر تھی اور ان کا فنا ہونا بھی ان کی روک ٹوک کے بغیر ہو گا۔اگر ان کو انکار پر قدرت ہوتی تو ان کی زندگی بقا سے ہمکنار ہوتی۔
لَمْ یَتَكَآءَدْهُ صُنْعُ شَیْءٍ مِّنْهَاۤ اِذْ صَنَعَهٗ، وَ لَمْ یَؤُدْهُ مِنْهَا خَلْقُ مَا خَلَقَهٗ وَ بَرَاَهٗ، وَ لَمْ یُكَوِّنْهَا لِتَشْدِیْدِ سُلْطَانٍ، وَ لَا لِخَوْفٍ مِّنْ زَوَالٍ وَ نُقْصَانٍ، وَ لَا لِلْاِسْتِعَانَةِ بِهَا عَلٰی نِدٍّ مُّكَاثِرٍ، وَ لَا لِلْاِحْتِرَازِ بِهَا مِنْ ضِدٍّ مُّثَاوِرٍ، وَ لَا لِلْاِزْدِیَادِ بِهَا فِیْ مُلْكِهٖ، وَ لَا لِمُكَاثَرَةِ شَرِیْكٍ فِیْ شِرْكِهٖ، وَ لَا لِوَحْشَةٍ كَانَتْ مِنْهُ، فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَاْنِسَ اِلَیْهَا. ثُمَّ هُوَ یُفْنِیْهَا بَعْدَ تَكْوِیْنِهَا، لَا لِسَاَمٍ دَخَلَ عَلَیْهِ فِیْ تَصْرِیْفِهَا وَ تَدْبِیْرِهَا، وَ لَا لِرَاحَةٍ وَّاصِلَةٍ اِلَیْهِ، وَ لَا لِثِقَلِ شَیْءٍ مِّنْهَا عَلَیْهِ.
جب اس نے کسی چیز کو بنایا تو اس کے بنانے میں اسے کوئی دشواری پیش نہیں آئی اور نہ جس چیز کو اس نے خلق و ایجاد کیا اس کی آفرینش نے اسے خستہ و درماندہ کیا۔ اس نے اپنی سلطنت (کی بنیادوں) کو استوار کرنے اور(مملکت کے) زوال اور(عزت کے) انحطاط کے خطرات (سے بچنے ) اور کسی جمع جتھے والے حریف کے خلاف مدد حاصل کرنے اور کسی حملہ آور غنیم سے محفوظ رہنے اور ملک و سلطنت کا دائرہ بڑھانے اور کسی شریک کے مقابلہ میں اپنی کثرت پر اترانے کیلئے ان چیزوں کو پیدا نہیں کیا اور نہ اس لئے کہ اُس نے (تنہائی کی) وحشت سے(گھبرا کر) یہ چاہا ہو کہ ان چیزوں سے جی لگائے، پھر وہ ان چیزوں کو بنانے کے بعد فنا کر دے گا، اس لئے نہیں کہ ان میں ردّ و بدل کرنے اور ان کی دیکھ بھال رکھنے سے اسے دل تنگی لاحق ہوئی ہو اور نہ اس آسودگی و راحت کے خیال سے کہ جو (انہیں مٹا کر) اسے حاصل ہونے کی توقع ہو اور نہ اس وجہ سے کہ ان میں سے کسی چیز کا اس پر بوجھ ہو۔
لَا یُمِلُّهٗ طُوْلُ بَقَآئِهَا فَیَدْعُوَهٗ اِلٰی سُرْعَةِ اِفْنَآئِهَا، لٰكِنَّهٗ سُبْحَانَهٗ دَبَّرَهَا بِلُطْفِهٖ، وَ اَمسَكَهَا بِاَمْرِهٖ، وَ اَتْقَنَهَا بِقُدْرَتِهٖ. ثُمَّ یُعِیْدُهَا بَعْدَ الْفَنَآءِ مِنْ غَیْرِ حَاجَةٍ مِّنْهُ اِلَیْهَا، وَ لَا اسْتِعَانَةٍۭ بِشَیْءٍ مِّنْهَا عَلَیْهَا، وَ لَا لِانْصِرَافٍ مِّنْ حَالِ وَحْشَةٍ اِلٰی حَالِ اسْتِئْنَاسٍ، وَ لَا مِنْ حَالِ جَهْلٍ وَّ عَمًی اِلٰی حَالِ عِلْمٍ وَّ الْتِمَاسٍ، وَ لَا مِنْ فَقْرٍ وَّ حَاجَةٍ اِلٰی غِنًی وَّ كَثْرَةٍ، وَ لَا مِنْ ذُلٍّ وَّضَعَةٍ اِلٰی عِزٍّ وَ قُدْرَةٍ.
اسے ان چیزوں کی طول طویل بقا آزردہ و دل تنگ نہیں بناتی کہ یہ انہیں جلدی سے فنا کر دينے کی اسے دعوت دے، بلکہ اللہ سبحانہ نے اپنے لطف و کرم سے ان کا بندوبست کیا ہے اور اپنے فرمان سے ان کی روک تھام کر رکھی ہے اور اپنی قدرت سے ان کو مضبوط بنایا ہے۔ پھر وہ ان چیزوں کو فنا کے بعد پلٹائے گا، نہ اس لئے کہ ان میں سے کسی چیز کی اسے احتیاج ہے اور ان کی مدد کا خواہاں ہے اور نہ تنہائی کی الجھن سے منتقل ہو کر دل بستگی کی حالت پیدا کرنے کیلئے اور جہالت و بے بصیرتی کی حالت سے واقفیت اور تجربات کی دنیا میں آنے کیلئے اور فقر و احتیاج سے دولت و فراوانی اور ذلت و پستی سے عزت و توانائی کی طرف منتقل ہونے کیلئے ان کو دوبارہ پیدا کرتا ہے۔

۱؂مطلب یہ ہے کہ لفظ «مُنْذُ» ، «قَدْ» ، اور «لَوْلَا» جن معانی کیلئے وضع ہیں وہ قدیم و ازلی و کامل ہونے کے منافی ہیں، لہٰذا ان کا اشیاء سے متعلق ہونا ان کے حادث و ناقص ہونے کی دلیل ہوگا۔ وہ اس طرح کہ «مُنْذُ» ابتدائے زمانہ کی تعیین کیلئے وضع ہے، جیسے: «قَدْ وُجِدَ مُنْذُ کَذَا» : ’’یہ چیز فلاں وقت سے پائی جاتی ہے‘‘۔ اس سے وقت کی تعیین و حد بندی ہو گئی اور جس کیلئے تحدید وقت ہو سکے وہ قدیم نہیں ہو سکتی اور لفظ «قَدْ» ماضی قریب کے معنی دیتا ہے اور یہ معنی اسی میں ہو سکتے ہیں جو زمانہ میں محدود ہو اور «لَوْلَا» کی وضع «اِمْتِنَاعُ الشَّیْءِ لِوُجُوْدِ غَیْرِہٖ » کیلئے ہے، جیسے: «مَاۤ اَحْسَنَہٗ وَ اَکْمَلَہٗ لَوْلَا فِیْہِ کَذَا» : ’’یہ چیز کتنی حسین و کامل ہوتی اگر اس میں یہ بات نہ ہوتی‘‘، لہٰذا جس سے یہ متعلق ہو گا وہ حسن و کمال میں دوسرے کا محتاج اور اپنی ذات میں ناقص ہوگا۔