فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

تسلیم و رضا بہترین مصاحب، اور علم شریف ترین میراث ہے حکمت 4
(١٩) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۹)
قَالَهٗ لِلْاَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ وَّ هُوَ عَلٰى مِنْۢبَرِ الْكُوْفَةِ يَخْطُبُ، فَمَضٰى فِیْ بَعْضِ كَلَامِهٖ شَیْءٌ اعْتَرَضَهُ الْاَشْعَثُ فَقَالَ: يَاۤ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ! هٰذِهٖ عَلَيْكَ لَا لَكَ، فَخَفَضَ عَلَيْهِ السَّلَامُ اِلَيْهِ بَصَرَهٗ ثُمَّ قَالَ:
امیر المومنین علیہ السلام منبرِ کوفہ پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اشعث ابنِ قیس [۱] نے آپؑ کے کلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! یہ بات تو آپؑ کے حق میں نہیں، بلکہ آپؑ کے خلاف پڑتی ہے تو حضرتؑ نے اسے نگاہِ غضب سے دیکھا اور فرمایا:
مَا یُدْرِیْكَ مَا عَلَیَّ مِمَّا لِیْ؟ عَلَیْكَ لَعْنَةُ اللهِ وَ لَعْنَةُ اللَّاعِنِیْنَ! حَآئِكُ ابْنُ حَآئِكٍ! مُنَافِقُ ابْنُ كَافِرٍ! وَاللهِ! لَقَدْ اَسَرَكَ الْكُفْرُ مَرَّةً وَّ الْاِسْلَامُ اُخْرٰى، فَمَا فَدَاكَ مِنْ وَّاحِدَةٍ مِّنْهُمَا مَالُكَ وَ لَا حَسَبُكَ. وَ اِنَّ امْرَاً دَلَّ عَلٰى قَوْمِهِ السَّیْفَ، وَ سَاقَ اِلَیْهِمُ الْحَتْفَ، لَحَرِیٌّ اَنْ یَّمْقُتَهُ الْاَقْرَبُ، وَ لَا یَاْمَنَهُ الْاَبْعَدُ.
تجھے کیا معلوم کہ کون سی چیز میرے حق میں ہے اور کون سی چیز میرے خلاف جاتی ہے۔ تجھ پر اللہ کی پھٹکار اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو! تو جولاہے کا بیٹا جو لاہا اور کافر کی گود میں پلنے والا منافق ہے۔ تو ایک دفعہ کافروں کے ہاتھوں میں اور ایک دفعہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں اسیر ہوا۔ لیکن تجھ کو تیرا مال اور حسب اس عار سے نہ بچا سکا اور جو شخص اپنی قوم پر تلوار چلوا دے اور اس کی طرف موت کو دعوت اور ہلاکت کا بلاوا دے، وہ اسی قابل ہے کہ قریبی اس سے نفرت کریں اور دور والے بھی اس پر بھروسا نہ کریں۔
اَقُوْلُ: يُرِيْدُ ؑ اَنَّهٗۤ اُسِرَ فِی الْكُفْرِ مَرَةً، وَ فِی الْاِسْلَامِ مَرَّةً. وَ اَمَّا قَوْلُهٗ ؑ »دَلَّ عَلٰى قَوْمِهِ السَّيْفَ« فَاَرَادَ بِهٖ حَدِيْثًا كَانَ لِلْاَشْعَثِ مَعَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيْدِ بِالْيَمَامَةِ، غَرَّ فِيْهِ قَوْمَهٗ، وَ مَكَرَ بِهِمْ حَتّٰى اَوْقَعَ بِهِمْ خَالِدٌ، وَ كَانَ قَوْمُهٗ بَعْدَ ذٰلِكَ يُسَمُّوْنَهٗ «عُرْفَ النَّارِ»، وَ هُوَ اسْمٌ لِّلْغَادِرِ عِنْدَهُمْ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: یہ ایک دفعہ کفر کے زمانہ میں اور ایک دفعہ اسلام کے زمانہ میں اسیر کیا گیا تھا۔ رہا حضرتؑ کا یہ ارشاد کہ: ’’جو شخص اپنی قوم پر تلوار چلوا دے‘‘ تو اس سے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو اشعث کو خالد ابنِ ولید کے مقابلہ میں یمامہ میں پیش آیا تھا کہ جہاں اس نے اپنی قوم کو فریب دیا تھا اور ان سے چال چلی تھی، یہاں تک کہ خالد نے ان پر حملہ کردیا اور اس واقعہ کے بعد اس کی قوم والوں نے اس کا لقب ’’عرف النار‘‘ رکھ دیا اور یہ ان کے محاورہ میں غدار کیلئے بولا جاتا ہے۔

۱؂اشعث ابن قیس کندی
اس کا اصل نام ’’معدیکرب‘‘ اور کنیت ’’ابو محمد‘‘ ہے، مگر اپنے بالوں کی پراگندگی کی وجہ سے ’’اشعث‘‘ (پراگندہ مُو) کے لقب سے زیادہ مشہور ہے۔ جب بعثت کے بعد یہ اپنے قبیلہ سمیت مکہ آیا تو پیغمبر ﷺ نے اسے اور اس کے قبیلہ کو اسلام کی دعوت دی، لیکن یہ سب منہ موڑ کر چلتے ہوئے اور ایک بھی اسلام قبول کرنے کیلئے آمادہ نہ ہوا۔ اور جب ہجرت کے بعد اسلام کے قدم جم گئے اور اس کا پرچم لہرانے لگا اور اطراف و جوانب کے وفد جوق در جوق مدینہ آنا شروع ہوئے تو یہ بھی بنی کندہ کے ایک وفد کے ہمراہ پیغمبر ﷺ کی خدمت میں آیا اور اسلام قبول کیا۔ صاحبِ استیعاب لکھتے ہیں کہ یہ پیغمبر اسلام ﷺ کے بعد مرتد ہو گیا اور حضرت ابو بکر کے زمانہ خلافت میں کہ جب اسے اسیر کر کے مدینہ لایا گیا تو پھر سے اسلام قبول کیا مگر اس وقت بھی اس کا اسلام صرف دکھاوے کا تھا۔ چنانچہ شیخ محمد عبدہ نے حاشیہ نہج البلاغہ پر تحریر کیا ہے کہ:
کَانَ الْاَشْعَثُ فِیْۤ اَصْحَابِ عَلِیٍّ ؑ کَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اُبَىِّ ابْنِ سَلُوْلَ فِیْۤ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، کُلٌّ مِّنْھُمَا رَاْسُ النِّفَاقِ فِیْ زَمَنِہٖ.
جس طرح عبداللہ ابنِ ابی ابنِ سلول اصحاب ِرسولؐ میں تھا ویسا ہی اشعث، علی ابنِ ابی طالب کی جماعت میں تھا اور یہ دونوں اپنے اپنے عہد میں چوٹی کے منافق تھے۔[۱]
جنگِ یرموک میں اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ چنانچہ ابن قتیبہ نے المعارف میں اسے کانوں کی فہرست میں درج کیا ہے اور حضرت ابو بکر کی بہن اُم فروہ بنتِ ابی قحافہ جو پہلے ایک ازدی کے نکاح میں اور پھر تیم دارمی کے عقد میں تھیں تیسری دفعہ اسی اشعث سے بیاہی گئیں جن سے تین لڑکے محمد، اسماعیل اور اسحاق پیدا ہوئے۔ کتب رجال میں درج ہے کہ یہ بھی ایک آنکھ سے معذور تھیں۔
ابن ابی الحدید نے ابو الفرج سے یہ عبارت نقل کی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قتل امیر المومنینؑ کی سازش میں برابر کا شریک تھا:
وَ قَدْ كَانَ ابْنُ مُلْجَمٍ اَتَى الْاَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ فِیْ هٰذِهِ اللَّيْلَةِ فَخَلَا بِهٖ فِیْ بَعْضِ نَوَاحِی الْمَسْجِدِ وَ مَرَّ بِهِمَا حُجْرُ بْنُ عَدِیٍّ، فَسَمِعَ الْاَشْعَثَ وَ هُوَ يَقُوْلُ لِابْنِ مُلْجَمٍ: النَّجَآءَ النَّجَآءَ بِحَاجَتِكَ فَقَدْ فَضَحَكَ الصُّبْحُ، قَالَ لَهٗ حُجْرُ: قَتَلْتَهٗ يَاۤ اَعْوَرُ! وَ خَرَجَ مُبَادِرًا اِلٰى عَلِیٍّ ؑ وَ قَدْ سَبَقَهُ ابْنُ مُلْجَمٍ فَضَرَبَهٗ فَاَقْبَلَ حُجْرٌ وَّ النَّاسُ يَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَؑ.
شبِِ ضربت ابن ملجم، اشعث ابنِ قیس کے پاس آیا اور دونوں علٰیحدگی میں مسجد کے ایک گوشہ میں جا کر بیٹھ گئے کہ اُدھر سے حجر ابن عدی کا گزر ہوا، تو انہوں نے سنا کہ اشعث، ابن ملجم سے کہہ رہا ہے کہ: بس اب جلدی کرو، ورنہ پو پھوٹ کر تمہیں رسوا کر دے گی۔ حجر نے یہ سنا تو اشعث سے کہا کہ: اے کانے! تو علی علیہ السلام کے قتل کا سر و سامان کر رہا ہے اور پھر تیزی سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف گئے، مگر جب امیر المومنین علیہ السلام کو نہ پا کر پلٹے تو ابنِ ملجم اپنا کام کر چکا تھا اور لوگ کہہ رہے تھے کہ امیر المومنین علیہ السلام قتل کر دیئے گئے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۶، ص۴۳)
اس کی بیٹی جعدہ نے حضرت امام حسن علیہ السلام کو زہر دے کر ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ چنانچہ مسعودی نے لکھا ہے کہ:
اِنَّ امْرَاَتَهٗ جَعْدَةَ بِنْتَ الْاَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ الْكِنْدِیِّ سَقَتْهُ السَّمَّ، وَ قَدْ كَانَ مُعَاوِيَةُ دَسَّ اِلَيْهَا: اِنَّكِ اِنِ احْتَلْتِ فِیْ قَتْلِ الْحَسَنِ وَجَّهْتُ اِلَيْكِ بِمَائَةِ اَلْفِ دِرْهَمٍ وَ زَوَّجْتُكِ مِنْ يَزِيْدَ.
آپؑ کی زوجہ جعدہ بنت اشعث کندی نے آپؑ کو زہر دیا اور معاویہ نے اس سے یہ سازباز کی تھی کہ اگر تم کسی طریقہ سے حسن علیہ السلام کو زہر دے دو تو میں تمہیں ایک لاکھ درہم دوں گا اور یزید سے تمہارا عقد کر دوں گا۔ (مروج الذہب، ج۲، ص۵۰)
اس کا بیٹا محمد ابن اشعث کوفہ میں حضرت مسلم کو فریب دینے اور کربلا میں خون سید الشہداؑ بہانے میں شریک تھا مگر ان سب باتوں کے باوجود بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابنِ ماجہ کے راویان حدیث میں سے ہے۔
۲؂جنگِ نہروان کے بعد مسجد کوفہ میں تحکیم کی بد عنوانیوں کے سلسلہ میں حضرتؑ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ: یا امیرالمومنینؑ! آپؑ نے پہلے تو ہمیں اس تحکیم سے روکا اور پھر اس کا حکم بھی دے دیا، ہمیں نہیں معلوم کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات زیادہ صحیح اور مناسب تھی۔ حضرتؑ نے یہ سن کر ہاتھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا: «هٰذَا جَزَاءُ مَنْ تَرَكَ الْعُقْدَةَ» [۲]: ’’جو ٹھوس رائے کو چھوڑ دیتا ہے اسے ایسا ہی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے‘‘۔ یعنی یہ تمہارے کرتوت کا پھل ہے جو تم نے حزم و احتیاط کا دامن چھوڑ کر تحکیم کے مان لینے پر اصرار کیا تھا، مگر اشعث اس سے یہ سمجھا کہ حضرتؑ اپنے بارے میں فرما رہے ہیں کہ میری یہ حیرانی و سرگرادانی تحکیم کے مان لینے کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا بول اٹھا کہ: یا امیر المومنینؑ! اس سے تو آپؑ ہی کی ذات پر حرف آتا ہے، جس پر حضرتؑ نے طیش میں آ کر فرمایا کہ: تمہیں کیا معلوم کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور تم کیا جانو کہ کون سی چیز میرے حق میں ہے اور کون سی چیز میرے خلاف پڑتی ہے، تم جو لا ہے اور جولاہے کے بیٹے اور کافر کی گود میں پروان چڑھنے والے منافق ہو، تم پر اللہ کی اور ساری دنیا کی لعنت ہو۔
شارحین نے امیر المومنین علیہ السلام کے اشعث کو ’’حائک‘‘ (جولاہا) کہنے کی چند وجہیں لکھی ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ اور اس کا باپ اپنے اکثر اہلِ وطن کی طرح کپڑا بننے کا دھندا کرتے تھے، اس لئے اس کے پیشہ کی پستی و دنایت کی طرف اشارہ کرنے کیلئے اسے جولاہا کہا ہے۔ یوں تو یمنیوں کے پیشے اور بھی کئی تھے، مگر زیادہ دھندا ان کے ہاں یہی ہوتا تھا۔ چنانچہ خالد ابنِ صفوان نے ان کے پیشوں کا تعارف کراتے ہوئے پہلے اسی پیشے کا ذکر کیا ہے:
مَا عَسٰۤى اَنْ اَقُوْلَ لِقَوْمٍ كَانُوْا بَيْنَ نَاسِجِ بُرْدٍ وَّ دَابِـغِ جِلْدٍ وَّ سَآئِسِ قِرَدٍ وَّ رَاكِبِ عَرْدٍ، دَلَّ عَلَيْهِمْ هُدْهُدُ وَ غَرَّقَتْهُمْ فَاْرَةٌ وَّ مَلَّكَتْهُمُ امْرَاَةٌ.
میں اس قوم کے بارے میں کیا کہوں کہ جن میں صرف کپڑا بننے والے، چمڑا رنگنے والے، بندر نچانے والے اور گدھے پر سوار ہونے والے ہی ہوتے ہیں۔ ہُد ہُد نے ان کا ٹھکانا بتایا، ایک چوہیا نے انہیں غرق کر دیا اور ایک عورت نے ان پر حکومت کی۔ (البیان و التبیین، ج۱، ص۱۳۰)
دوسری وجہ یہ ہے کہ ’’حیاکت‘‘ کے معنی جھوم کر اور بل کھا کر چلنے کے ہیں اور یہ چونکہ غرور اور تکبر کی وجہ سے شانے مٹکا کر اور بل کھا کر چلتا تھا، اس بنا پر اسے حائک‘‘ فرمایا۔
تیسری وجہ یہ ہے اور یہی زیادہ نمایاں اور واضح ہے کہ اس کی حماقت و دنانیت ظاہر کرنے کیلئے اسے جولاہا کہا ہے، چونکہ ہر دنی و فرومایہ کو مثل کے طور پر جولاہا کہہ دیا جاتا ہے۔ ان کے فہم و فراست کا یہی عروج کیا کم تھا کہ ان کی حماقتیں ضرب المثل بن چکی تھیں جب کہ کسی خصوصی امتیاز کے بغیر کوئی چیز ضرب المثل کی حیثیت حاصل نہیں کیا کرتی کہ امیر المومنین علیہ السلام نے بھی اس کی توثیق فرما دی کہ جس کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ہے کہ جو اللہ و رسول ﷺ کے خلاف جوڑ توڑ کرے اور افترا پردازیوں کے جال بنے کہ جو صرف منافق ہی کا شیوہ ہوتا ہے۔ چنانچہ وسائل الشیعہ میں ہے کہ:
ذُكِرَ الْحَآئِكُ عِنْدَ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ ؑ اَنَّهٗ مَلْعُونٌ، فَقَالَ: اِنَّمَا ذٰلِكَ الَّذِیْ يَحُوْكُ الْكَذِبَ عَلَى اللّٰهِ وَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ ﷺ.
امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے حائک کے ملعون ہونے کا ذکر ہوا تو آپؑ نے فرمایا کہ: اس سے مراد وہ ہے جو اللہ و رسول ﷺ پر افترا باندھتا ہے۔[۳]
(حضرتؑ نے اس خطبے میں) لفظِ ’’حائک‘‘ کے بعد لفظ ’’منافق‘‘ ارشاد فرمایا ہے اور دونوں میں واو عطف کا بھی فاصلہ نہیں رکھا تا کہ دونوں کے قریب المعنی ہونے پر روشنی پڑے اور پھر اس نفاق و حق پوشی کی بنا پر اسے اللہ اور لعنت کرنے والوں کی لعنت کا مستحق ٹھہرایا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الْكِتٰبِۙ اُولٰٓٮِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ﴾
وہ لوگ جو ہماری اتاری ہوئی نشانیوں اور رہنمائیوں کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم نے کتاب میں انہیں کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا ہے تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔[۴]
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ: تم کفر میں بھی اسیری کی ذلت سے نہ بچ سکے اور اسلام لانے کے بعد بھی ان رسوائیوں نے تمہارا پیچھا نہ چھوڑا اور تمہیں اسیر بنا لیا گیا۔
چنانچہ کفر کی حالت میں اس کی اسیری کی صورت یہ ہوئی کہ جب اس کے باپ قیس کو قبیلہ بنی مراد نے قتل کر ڈالا تو اس نے بنی کندہ کے جنگ آزماؤں کو جمع کیا اور انہیں تین ٹولیوں میں بانٹ دیا۔ ایک ٹولی کی باگ ڈور خود سنبھالی اور دوسری دو ٹولیوں پر کبش ابن ہانی اور قشعم ابن ارقم کو سردار مقرر کیا اور بنی مراد پر حملہ کرنے کیلئے چل کھڑا ہوا۔ مگر بد بختی جو آئی تو بنی مراد کے بجائے بنی حارث ابنِ کعب پر حملہ کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کبش ابن ہانی اور قشعم ابنِ ارقم قتل کر دیئے گئے اور اسے زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ آخر تین ہزار اونٹ فدیہ کے دے کر ان سے جان چھڑائی۔ امیر المومنین علیہ السلام کے ارشاد: فَمَا فَدَاكَ مِنْ وَّاحِدَةٍ مِّنْهُمَا مَالُكَ وَ لَا حَسَبُكَ : (تجھے تیرا مال و حسب ان دونوں گرفتاریوں میں سے کسی ایک سے بھی نہ چھڑا سکا) میں فدیہ سے مراد حقیقی فدیہ نہیں ہے، کیونکہ وہ فدیہ دے کر ہی آزاد ہوا تھا، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اسے مال کی فراوانی اور کنبہ میں توقیر و سر بلندی اس عار سے نہ بچا سکی اور وہ اسیری کی ذلتوں سے اپنا دامن محفوظ نہ رکھ سکا۔
اس کی دوسری اسیری کا واقعہ یہ ہے کہ جب پیغمبر اسلام ﷺ نے دنیا سے رحلت فرمائی تو حضرموت کے علاقہ میں بغاوت پھیل گئی جسے فرو کرنے کیلئے حضرت ابو بکر نے وہاں کے حاکم زیاد ابن لبید کو لکھا کہ وہ ان لوگوں سے بیعت لے اور ان سے زکوٰة و صدقات وصول کرے۔ چنانچہ جب زیاد ابن لبید قبیلہ بنی عمرو ابنِ معاویہ کے ہاں زکوٰة جمع کرنے کیلئے گیا تو شیطان ابنِ حجر کی ایک اونٹنی جو بڑی خوبصورت اور مضبوط ڈیل ڈول کی تھی اسے پسند آ گئی۔ اس نے بڑھ کر اس پر قبضہ کر لیا۔ شیطان اسے دینے پر رضامند نہ ہوا اور کہا کہ اسے رہنے دیجئے اور اس کے بدلہ میں کوئی اور اونٹنی لے لیجئے، مگر زیاد نہ مانا۔ شیطان نے اپنے بھائی عداء ابنِ حجر کو اپنی حمایت کیلئے بلا لیا۔ اس نے بھی آ کر کہا سنا، مگر زیاد اپنی ضد پر اڑا رہا اور کسی صورت میں اونٹنی سے ہاتھ اٹھانے کیلئے آمادہ نہ ہوا۔ آخر ان دونوں بھائیوں نے مسروق ابن معدیکرب سے فریاد کی۔ چنانچہ مسروق نے بھی اپنا زور لگایا کہ کسی طرح زیاد اس اونٹنی کو چھوڑ دے مگر اس نے صاف صاف انکار کر دیا جس پر مسروق کو جوش آیا اور اس نے بڑھ کر اونٹنی کھول لی اور شیطان کے حوالے کر دی۔
زیاد اس پر بھڑک اٹھا اور اپنے آدمیوں کو جمع کیا اور مرنے مارنے کیلئے تل گیا۔ ادھر بنی لبید بھی مقابلہ کیلئے اکٹھا ہو گئے، مگر زیاد کو شکست نہ دے سکے، بلکہ بُری طرح اس کے ہاتھوں پٹے۔ عورتیں چھنوائیں اور مال و متاع لٹوایا۔ آخر جو بچے کچے رہ گئے تھے وہ اشعث کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اشعث نے اس شرط پر کمک کا وعدہ کیا کہ اسے اس علاقہ کا حکمران مان لیا جائے۔ ان لوگوں نے اس شرط کو تسلیم کر لیا اور باقاعدہ اس کی رسمِ تاجپوشی بھی ادا کر دی۔ جب یہ اپنا اقتدار منوا چکا تو ایک فوج کو ترتیب دے کر زیاد سے لڑنے کیلئے نکل کھڑا ہوا۔
ادھر حضرت ابو بکر نے مہاجر ابن امیہ والی یمن کو لکھ رکھا تھا کہ وہ ایک دستہ لے کر زیاد کی مدد کیلئے پہنچ جائے۔ چنانچہ مہاجر فوجی دستہ لئے آ رہا تھا کہ اس کا سامنا ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر تلواریں سونت لیں اور مقام زرقان میں معرکہ کار زار گرم کر دیا۔ مگر نتیجہ میں اشعث میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ قلعہ نجیر میں قلعہ بند ہو گیا۔ دشمن ایسے نہ تھے جو پیچھا چھوڑ دیتے۔ انہوں نے قلعہ کے گرد محاصرہ ڈال دیا۔
اشعث نے سوچا کہ وہ اس بے سروسامانی کے عالم میں کب تک قلعہ میں محصور رہ سکتا ہے، رہائی کی کوئی ترتیب کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہ چپکے سے ایک رات قلعہ سے باہر نکلا، زیاد اور مہاجر سے جا کر ملا اور ان سے یہ سازباز کی کہ اگر اسے اور اس کے گھر کے نو آدمیوں کو امان دے دی جائے تو قلعہ کا دروازہ کھلوا دے گا۔ انہوں نے اس شرط کو مان لیا اور اس سے کہا کہ ان کے نام لکھ کر ہمیں دے دو۔ اس نے نو نام لکھ کر ان کے حوالے کر دیئے اور اپنی روایتی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنا نام اس فہرست میں لکھنا بھول گیا۔ ادھر یہ طے کرنے کے بعد اپنی قوم سے جا کر یہ کہا کہ میں تمہارے لئے امان حاصل کر چکا ہوں، اب قلعہ کا دروازہ کھول دیا جائے۔ جب دروازہ کھولا گیا تو زیاد کی فوج ان پر ٹوٹ پڑی۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم سے تو امان کا وعدہ کیا گیا تھا۔ زیاد کی سپاہ نے کہا کہ غلط، اشعث نے صرف اپنے گھر کے دس آدمیوں کیلئے امان چاہی تھی جن کے نام ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ غرض کہ آٹھ سو آدمیوں کو تہ تیغ کر دیا گیا اور کئی عورتوں کے ہاتھ قلم کئے گئے اور حسبِ معاہدہ نو آدمیوں کو چھوڑ دیا گیا، مگر اشعث کا معاملہ پیچیدہ ہو گیا اور آخر یہ طے پایا کہ اسے حضرت ابو بکر کے پاس بھیج دیا جائے وہی اس کا فیصلہ کریں گے۔آخر ایک ہزار قیدی عورتوں کے ساتھ اسے بیڑیوں میں جکڑ کر مدینہ روانہ کر دیا گیا۔ راستے میں اپنے، بیگانے، عورتیں، مرد سب اس پر لعنت کرتے جاتے تھے اور عورتیں اسے غدار کہہ کر پکار رہی تھیں۔ اور جو اپنی قوم پر تلوار چلا دے اس سے زیادہ غدار ہو بھی کون سکتا ہے۔ بہر صورت جب یہ مدینہ پہنچا تو حضرت ابو بکر نے اسے رہا کر دیا اور اسی موقع پر اُمّ فروہ سے اس کا عقد ہوا۔

[۱]۔ نہج البلاغہ، حاشیہ شیخ محمد عبدہ، ص ۵۶۔
[۲]۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۱۹۔
[۳]۔ وسائل الشیعہ، ج ۱۲، ص ۲۴۸، مطبوعہ ناشر موسسۃ آل البیت، قم ، ۱۴۰۹ ھ۔
[۴]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۵۹۔