جو شخص لوگوں کے بار ے میں جھٹ سے ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو انہیں ناگوار گزریں تو پھر وہ اس کیلئے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جنہیں وہ جانتے نہیں۔ حکمت 35
(٦٨) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۶۸)
فِی سُحْرَةِ الْيَوْمِ الَّذِی ضُرِبَ فِيهِ
آپؑ نے یہ کلام شبِ ضربت کی سحر کو فرمایا
مَلَكَتْنِیْ عَیْنِیْ وَ اَنَا جَالِسٌ، فَسَنَحَ لِیْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَاذَا لَقِیْتُ مِنْ اُمَّتِكَ مِنَ الْاَوَدِ وَ اللَّدَدِ؟ فَقَالَ: «ادْعُ عَلَیْهِمْ»، فَقُلْتُ: اَبْدَلَنِی اللهُ بِهِمْ خَیْرًا مِّنْهُمْ، وَ اَبْدَلَهُمْ بِیْ شَرًّا لَّهُمْ مِنِّیْ.
میں بیٹھا ہوا تھا کہ میری آنکھ لگ گئی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ میرے سامنے جلوہ فرما ہوئے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہؐ! مجھے آپؐ کی اُمت کے ہاتھوں کیسی کیسی کجرویوں اور دشمنیوں سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: «تم ان کیلئے بد دُعا کرو»، تو میں نے (صرف اتنا) کہا کہ: اللہ مجھے ان کے بدلے میں ان سے اچھے لوگ عطا کرے اور ان کو میرے بدلے میں کوئی بُرا (امیر) دے۔
یَعْنِیْ بِـ«الْاَوَدِ»: الْاِعْوِجَاجَ، وَ بِـ«اللَّدَدِ»: الْخِصَامَ.وَهٰذَا مِنْ اَفْصَحِ الْكَلَامِ.
سیّد رضی کہتے ہیں کہ: «اَوَد» کے معنی ٹیڑھا پن اور «لَدَد» کے معنی دشمنی و عناد کے ہیں اور یہ بہت فصیح کلام ہے۔