’’عدل‘‘ کی بھی چار شاخیں ہیں: تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری۔ حکمت 30
(٩٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۹۳)
بَعَثَهٗ وَ النَّاسُ ضُلَّاَلٌ فِیْ حَیْرَةٍ، وَ خَابِطُوْنَ فِیْ فِتْنَةٍ، قَدِ اسْتَهْوَتْهُمُ الْاَهْوَآءُ، وَ اسْتَزَلَّتْهُمُ الْكِبْرِیَآءُ، وَ اسْتَخَفَّتْهُمُ الْجَاهِلِیِّةُ الْجَهْلَآءُ حَیَارٰی فِیْ زِلْزَالٍ مِّنَ الْاَمْرِ، وَ بَلَآءٍ مِّنَ الْجَهْلِ، فَبَالَغَ ﷺ فِی النَّصِیْحَةِ، وَ مَضٰی عَلَی الطَّرِیْقَةِ، وَ دَعَا اِلَی الْحِكْمَةِ ﴿وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ﴾.
پیغمبر ﷺ کو اس وقت میں بھیجا کہ جب لوگ حیرت و پریشانی کے عالم میں گم کردۂ راہ تھے اور فتنوں میں ہاتھ پیر مار رہے تھے، نفسانی خواہشوں نے انہیں بھٹکا دیا تھا اور غرور نے بہکا دیا تھا اور بھر پور جاہلیت نے ان کی عقلیں کھو دی تھیں اور حالات کے ڈانواں ڈول ہونے اور جہالت کی بلاؤں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے انہیں سمجھانے بجھانے کا پورا حق ادا کیا، خود سیدھے راستے پر جمے رہے اور حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف انہیں بلاتے رہے۔