دولت ہو تو پردیس میں بھی دیس ہے اور مفلسی ہو تو دیس میں بھی پردیس۔ حکمت 56
(١٨) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
مکتوب (۱۸)
اِلٰى عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَّ هُوَ عَامِلُهٗ عَلَى الْبَصْرَةِ
والی بصرہ عبد اللہ ابن عباس کے نام
وَاعْلَمْ اَنَّ الْبَصْرَةَ مَهْبِطُ اِبْلِیْسَ وَ مَغْرِسُ الْفِتَنِ، فَحَادِثْ اَهْلَهَا بِالْاِحْسَانِ اِلَیْهِمْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةَ الْخَوْفِ عَنْ قُلُوْبِهِمْ.
تمہیں معلوم ہو نا چاہیے کہ بصرہ وہ جگہ ہے جہاں شیطان اترتا ہے اور فتنے سر اٹھاتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کو حسن سلوک سے خوش رکھو اور ان کے دلوں سے خوف کی گرہیں کھول دو۔
وَ قَدْ بَلَغَنِیْ تَنَمُّرُكَ لِبَنِیْ تَمِیْمٍ وَّ غِلْظَتُكَ عَلَیْهِمْ، وَ اِنَّ بَنِیْ تَمِیْمٍ لَّمْ یَغِبْ لَهُمْ نَجْمٌ اِلَّا طَلَعَ لَهُمْ اٰخَرُ، وَ اِنَّهُمْ لَمْ یُسْبَقُوْا بِوَغْمٍ فِیْ جَاهِلِیَّةٍ وَّ لَاۤ اِسْلَامٍ، وَ اِنَّ لَهُمْ بِنَا رَحِمًا مَاسَّةً، وَ قَرَابَةً خَاصَّةً، نَحْنُ مَاْجُوْرُوْنَ عَلٰی صِلَتِهَا، وَ مَاْزُوْرُوْنَ عَلٰی قَطِیْعَتِهَا.
مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم بنی تمیم [۱] سے درشتی کے ساتھ پیش آتے ہو اور ان پر سختی روا رکھتے ہو۔ بنی تمیم تو وہ ہیں کہ جب بھی ان کا کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا ابھر آتا ہے، اور جاہلیت اور اسلام میں کوئی ان سے جنگ جوئی میں بڑھ نہ سکا۔ اور پھر انہیں ہم سے قرابت کا لگاؤ اور عزیز داری کا تعلق بھی ہے کہ اگر ہم اس کا خیال رکھیں گے تو اجر پائیں گے اور اس کا لحاظ نہ کریں گے تو گنہگار ہوں گے۔
فَارْبَعْ اَبَا الْعَبَّاسِ، رَحِمَكَ اللهُ! فِیْمَا جَرٰی عَلٰی لِسَانِكَ وَ یَدِكَ مِنْ خَیْرٍ وَّ شَرٍّ! فَاِنَّا شَرِیْكَانِ فِیْ ذٰلِكَ، وَ كُنْ عِنْدَ صَالِحِ ظَنِّیْ بِكَ، وَ لَا یَفِیْلَنَّ رَاْیِیْ فِیْكَ، وَ السَّلَامُ.
دیکھو ابن عباس! خدا تم پر رحم کرے! (رعیت کے بارے میں) تمہارے ہاتھ اور زبان سے جو اچھائی اور برائی ہونے والی ہو، اس میں جلدبازی نہ کیا کرو، کیونکہ ہم دونوں اس (ذمہ داری) میں برابر کے شریک ہیں۔ تمہیں اس حسن ظن کے مطابق ثابت ہونا چاہیے جو مجھے تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے بارے میں میری رائے غلط ثابت نہ ہونا چاہیے۔ والسلام۔
۱طلحہ و زبیر کے بصرہ پہنچنے کے بعد بنی تمیم ہی وہ تھے جو انتقامِ عثمان کی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لینے والے اور اس فتنہ کو ہوا دینے میں پیش پیش تھے۔ اس لئے جب عبد اللہ ابن عباس بصرہ کے عامل مقرر ہوئے تو انہوں نے ان کی بد عہدی و عداوت کو دیکھتے ہوئے انہیں برے سلوک ہی کا مستحق سمجھا اور ایک حد تک ان کے ساتھ سختی کا برتاؤ بھی کیا۔ مگر اس قبیلہ میں کچھ لوگ امیر المومنین علیہ السلام کے مخلص شیعہ بھی تھے۔ انہوں نے جب ابن عباس کا اپنے قبیلے کے ساتھ یہ رویہ دیکھا تو حارثہ ابن قدامہ کے ہاتھ ایک خط حضرتؑ کی خدمت میں تحریر کیا جس میں ابن عباس کے متشددانہ رویہ کی شکایت کی۔ جس پر حضرتؑ نے ابن عباس کو یہ خط تحریر کیا جس میں انہیں اپنی روش کے بدلنے اور حسنِ سلوک سے پیش آنے کی ہدایت فرمائی ہے اور انہیں اس قرابت کی طرف متوجہ کیا ہے جو بنی ہاشم و بنی تمیم میں پائی جاتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ بنی ہاشم و بنی تمیم سلسلۂ نسب میں الیاس ابن مضر پر ایک ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ مدر کہ ابن الیاس کی اولاد سے ہاشم ہیں اور طانجہ ابن الیاس کی اولاد سے تمیم تھا۔