Quick Contact

مستحبات سے قرب الٰہی نہیں حاصل ہوسکتا جبکہ وہ واجبات میں سد راہ ہوں۔ حکمت 39
(٣) وَ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
[۳]
اِنَّ لِلْخُصُوْمَةِ قُحَمًا.
لڑائی جھگڑے کا نتیجہ قحم ہوتے ہیں۔
یُرِیْدُ بِالْقُحَمِ الْمَھَالِكَ، لِاَنَّھَا تُقْحِمُ اَصْحَابَھَا فِی الْمَھَالِكِ وَ الْمَتَالِفِ فِی الْاَکْثَرِ، وَ مِنْ ذٰلِكَ «قُحْمَةُ الْاَعْرَابِ»، وَ ھُوَ اَنْ تُصِیْبَھُمُ السَّنَةُ فَتَتَعَرَّقَ اَمْوَالَھُمْ، فَذٰلِكَ تَقَحُّمُھَا فِیْھِمْ. وَ قِیْلَ فِیْہِ وَجْہٌ اٰخَرُ، وَ ھُوَ اَنَّھَا تُقْحِمُھُمْ بِلَادَ الرِّیْفِ، اَیْ: تُحْوِجُھُمْ اِلٰی دُخُوْلِ الْحَضَرِ عِنْدَ مُحُوْلِ الْبَدْوِ.
(سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ:) ’’قحم ‘‘ سے تباہیاں مراد ہیں، کیونکہ (اِقحام کے معنی دھکیلنے کے ہیں اور) لڑائی جھگڑا عموماً لڑنے جھگڑنے والوں کو مہلکوں اور تباہیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ اور اسی سے ’’قحمۃ الاعراب‘‘ (کا لفظ) ماخوذ ہے اور وہ یہ ہوتی ہے کہ بادیہ نشین عرب خشک سالیوں میں اس طرح مبتلا ہو جائیں کہ ان کے چوپائے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو کر رہ جائیں اور یہی اس بلا کا انہیں دھکیل دینا ہے۔ اور اس کی ایک اور بھی توجیہ کی گئی ہے اور وہ یہ کہ: سختی و شدت چونکہ انہیں شاداب حصوں کی طرف دھکیل دیتی ہے، یعنی صحرائی زندگی کی سختی و قحط سالی انہیں شہروں میں چلے جانے پر مجبور کر دیتی ہے، (اس لئے اسے ’’قحمة ‘‘ کہا جاتا ہے)۔