جس نے اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا اس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کر لیا۔ حکمت 2
(٤) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
مکتوب (۴)
اِلٰى بَعْضِ اُمَرَآءِ جَیْشِهٖ
ایک سالار لشکر کے نام
فَاِنْ عَادُوْا اِلٰی ظِلِّ الطَّاعَةِ فَذَاكَ الَّذِیْ نُحِبُّ، وَ اِنْ تَوَافَتِ الْاُمُوْرُ بِالْقَوْمِ اِلَی الشِّقَاقِ وَ الْعِصْیَانِ فَانْهَدْ بِمَنْ اَطاعَكَ اِلٰی مَنْ عَصَاكَ، وَ اسْتَغْنِ بِمَنِ انْقَادَ مَعَكَ عَمَّنْ تَقَاعَسَ عَنْكَ، فَاِنَّ الْمُتَكَارِهَ مَغِیْبُهٗ خَیْرٌ مِّنْ شُهُوْدِهٖ، وَ قُعُوْدُهٗ اَغْنٰی مِنْ نُّهُوْضِهٖ.
اگر وہ [۱] اطاعت کی چھاؤں میں پلٹ آئیں تو یہ تو ہم چاہتے ہی ہیں اور اگر ان کی تانیں بس بغاوت اور نافرمانی پر ہی ٹوٹیں تو تم فرمانبرداروں کو لے کر نافرمانوں کی طرف اٹھ کھڑے ہو۔ اور جو تمہارا ہمنوا ہو کر تمہارے ساتھ ہے اس کے ہوتے ہوئے منہ موڑنے والوں کی پروا نہ کرو۔ کیونکہ جو بد دلی سے ساتھ ہو اس کا نہ ہو نا ہونے سے بہتر ہے اور اس کا بیٹھے رہنا اس کے اٹھ کھڑے ہونے سے زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
۱جب عامل بصرہ عثمان ابن حنیف نے امیر المومنین علیہ السلام کو طلحہ و زبیر کے بصرہ پہنچنے کی اطلاع دی اور ان کے عزائم سے آگاہ کیا تو حضرتؑ نے یہ خط ان کے نام تحریر کیا جس میں انہیں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ اگر دشمن لڑائی پر اتر آئے تو وہ اس کے مقابلے کیلئے ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ نہ لیں کہ جو ایک طرف حضرت عائشہ اور طلحہ و زبیر کی شخصیت سے متاثر ہوں اور دوسری طرف کہنے سننے سے ان کے خلاف جنگ پر بھی آمادہ ہو گئے ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگوں سے جم کر لڑ نے کی توقع نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ان پر بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ ایسے لوگ اگر موجود رہے تو دوسروں کو بھی بد دل بنانے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو نظر انداز کر دینا ہی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔