’’عدل‘‘ کی بھی چار شاخیں ہیں: تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری۔ حکمت 30
(٧) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
مکتوب (۷)
اِلَیْهِ اَیْضًا
معاویہ ابن ابی سفیان کے نام
اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ اَتَتْنِیْ مِنْكَ مَوْعِظَةٌ مُّوَصَّلَةٌ، وَ رِسَالَةٌ مُّحَبَّرَةٌ، نَمَّقْتَهَا بِضَلَالِكَ، وَ اَمْضَیْتَهَا بِسُوْٓءِ رَاْیِكَ، وَ كِتَابُ امْرِئٍ لَّیْسَ لَهٗ بَصَرٌ یَّهْدِیْهِ وَ لَا قَآئِدٌ یُّرْشِدُهٗ، قَدْ دَعَاهُ الْهَوٰی فَاَجَابَهٗ، وَ قَادَهُ الضَّلَالُ فَاتَّبَعَهٗ، فَهَجَرَ لَاغِطًا، وَ ضَلَّ خَابِطًا.
تمہارا بے جوڑ نصیحتوں کا پلندہ اور بنایا سنوارا ہوا خط میرے پاس آیا، جسے اپنی گمراہی کی بنا پر تم نے لکھا اور اپنی بے عقلی کی وجہ سے بھیجا۔ یہ ایک ایسے شخص کا خط ہے کہ جسے نہ روشنی نصیب ہے کہ اسے سیدھی راہ دکھائے اور نہ کوئی رہبر ہے کہ اسے صحیح راستے پر ڈالے، جسے نفسانی خواہش نے پکارا تو وہ لبیک کہہ کر اٹھا، اور گمراہی نے اس کی رہبری کی تو وہ اس کے پیچھے ہو لیا، اور یاوَہ گوئی کرتے ہوئے اول فول بکنے لگا، اور بے راہ ہوتے ہوئے بھٹک گیا۔
[مِنْهُ]
[اس مکتوب کا ایک حصہ یہ ہے]
لِاَنَّهَا بَیْعَهٌ وَّاحِدَةٌ لَّا یُثَنّٰی فِیْهَا النَّظَرُ، وَ لَا یُسْتَاْنَفُ فِیْهَا الْخِیَارُ. الْخَارِجُ مِنْهَا طَاعِنٌ، وَ الْمُرَوِّیْ فِیْهَا مُدَاهِنٌ.
کیونکہ یہ بیعت ایک ہی دفعہ ہوتی ہے، نہ پھر اس میں نظر ثانی کی گنجائش ہوتی ہے، اور نہ پھر سے چناؤ ہو سکتا ہے۔ اس سے منحرف ہونے والا نظامِ اسلامی پر معترض قرار پاتا ہے، اور غور و تامل سے کام لینے والا منافق سمجھا جاتا ہے۔