فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا اس نے اپنے کو سبک کیا۔ حکمت 2
(٢٠٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۰۸)
وَ قَدْ سَئَلَهٗ سَآئِلٌ عَنْ اَحَادِیْثِ الْبِدَعِ وَ عَمَّا فِیْۤ اَیْدِی النَّاسِ مِنِ اخْتِلَافِ الْخَبَرِ، فَقالَؑ:
ایک شخص [۱] نے آپؑ سے من گھڑت اور متعارض حدیثوں کے متعلق دریافت کیا جو (عام طور سے) لوگوں کے ہاتھوں میں پائی جاتی ہیں تو آپؑ نے فرمایا کہ:
اِنَّ فِیْۤ اَیْدِی النَّاسِ حَقًّا وَّ بَاطِلًا، وَ صِدْقًا وَّ كَذِبًا، وَ نَاسِخًا وَّ مَنْسُوْخًا، وَ عَامًّا وَّ خَاصًّا، وَ مُحْكَمًا وَّ مُتَشَابِهًا، وَ حِفْظًا وَّ وَهْمًا، وَ لَقَدْ كُذِبَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ عَلٰی عَهْدِهٖ، حَتّٰی قَامَ خَطِیْبًا، فَقَالَ: «مَنْ كَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ».
لوگوں کے ہاتھوں میں حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، ناسخ اور منسوخ، عام اور خاص، واضح اور مبہم، صحیح او رغلط، سب ہی کچھ ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ کے دور میں آپؐ پر بہتان لگائے گئے، یہاں تک کہ آپؐ کو کھڑے ہو کر خطبہ میں کہنا پڑا کہ: «جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر بہتان باندھے گا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے»۔
وَ اِنَّمَاۤ اَتَاكَ بِالْحَدِیْثِ اَرْبَعَةُ رِجَالٍ لَّیْسَ لَهُمْ خَامِسٌ:
تمہارے پاس چار طرح کے لوگ حدیث لانے والے ہیں کہ جن کا پانچواں نہیں [۲] :
رَجُلٌ مُّنَافِقٌ مُّظْهِرٌ لِلْاِیْمَانِ، مُتَصَنِّـعٌۢ بِالْاِسْلَامِ، لَا یَتَاَثَّمُ وَ لَا یَتَحَرَّجُ، یَكْذِبُ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ مُتَعَمِّدًا، فَلَوْ عَلِمَ النَّاسُ اَنَّهٗ مُنَافِقٌ كَاذِبٌ لَّمْ یَقْبَلُوْا مِنْهُ، وَ لَمْ یُصَدِّقُوْا قَوْلَهٗ، وَ لٰكِنَّهُمْ قَالُوْا: صَاحِبُ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ رَاٰهُ، وَ سَمِـعَ مِنْهُ، وَ لَقِفَ عَنْهُ، فَیَاْخُذُوْنَ بِقَوْلِهٖ، وَ قَدْ اَخْبَرَكَ اللهُ عَنِ الْمُنَافِقِیْنَ بِمَاۤ اَخْبَرَكَ، وَ وَصَفَهُمْ بِمَا وَصَفَهُمْ بِهٖ لَكَ، ثُمَّ بَقُوْا بَعْدَهٗ عَلَيْهِ وَ اٰلِهِ السَّلَامُ، فَتَقرَّبُوْۤا اِلٰۤی اَئِمَّةِ الضَّلَالَةِ، وَ الدُّعَاةِ اِلَی النَّارِ بِالزُّوْرِ وَ الْبُهْتَانِ، فَوَلَّوْهُمُ الْاَعْمَالَ، وَ جَعَلُوْهُمْ حُكَّامًا عَلٰی رِقَابِ النَّاسِ، فَاَكَلُوْا بِهِمُ الدُّنْیَا، وَ اِنَّمَا النَّاسُ مَعَ الْمُلُوْكِ وَ الدُّنْیَا، اِلَّا مَنْ عَصَمَ اللهُ، فَهٰذَاۤ اَحَدُ الْاَرْبَعَةِ.
ایک تو وہ جس کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ، وہ ایمان کی نمائش کرتا ہے اور مسلمانوں کی سی وضع قطع بنا لیتا ہے، نہ گناہ کرنے سے گھبراتا ہے اور نہ کسی افتاد میں پڑنے سے جھجکتا ہے۔وہ جان بوجھ کر رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ اگر لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ یہ منافق اور جھوٹا ہے تو اس سے نہ کوئی حدیث قبول کرتے اور نہ اس کی بات کی تصدیق کرتے، لیکن وہ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا صحابی ہے، اس نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا بھی ہے اور ان سے حدیثیں بھی سنی ہیں اور آپؐ سے تحصیل علم بھی کی ہے۔ چنانچہ وہ (بے سوچے سمجھے) اس کی بات کو قبول کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے تمہیں منافقوں کے متعلق خبر دے رکھی ہے اور ان کے رنگ ڈھنگ سے بھی تمہیں آگاہ کر دیا ہے۔ پھر وہ رسول ﷺ کے بعد بھی باقی و برقرار رہے اور کذب و بہتان کے ذریعہ گمراہی کے پیشواؤں اور جہنم کا بلاوا دینے والوں کے یہاں اثر و رسوخ پیدا کیا۔ چنانچہ انہوں نے ان کو (اچھے اچھے) عہدوں پر لگایا اور حاکم بنا کر لوگوں کی گردنوں پر مسلط کر دیا اور ان کے ذریعہ سے اچھی طرح دنیا کو حلق میں اتارا اور لوگوں کا تو یہ قاعدہ ہے ہی کہ وہ بادشاہوں اور دنیا (والوں)کا ساتھ دیا کرتے ہیں۔مگر سوا ان (معدودے چند) افراد کے کہ جنہیں اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ چار میں سے ایک تو یہ ہوا۔
وَ رَجُلٌ سَمِـعَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ شَیْئًا لَّمْ یَحْفَظْهُ عَلٰی وَجْهِهٖ، فَوَهِمَ فِیْهِ، وَ لَمْ یَتَعَمَّدْ كَذِبًا، فَهُوَ فِیْ یَدَیْهِ، یَرْوِیْهِ وَ یَعْمَلُ بِهٖ، وَ یَقُوْلُ: اَنَا سَمِعْتُهٗ مِنْ رَسُولِ اللهِ --ﷺ، فَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ اَنَّهٗ وَهِمَ فِیْهِ لَمْ یَقْبَلُوْهُ مِنْهُ، وَ لَوْ عَلِمَ هُوَ اَنَّهٗ كَذٰلِكَ لَرَفَضَهٗ!.
اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے (تھوڑا بہت) رسول اللہ ﷺ سے سنا، لیکن جوں کا توں اسے یاد نہ رکھ سکا او راس میں اسے سہو ہو گیا۔ یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا، یہی کچھ اس کے دسترس میں ہے، اسے ہی دوسروں سے بیان کرتا ہے اور اسی پر خود بھی عمل پیرا ہوتا ہے اور کہتا بھی یہی ہے کہ: میں نے رسول ﷺ سے سنا ہے۔ اگر مسلمانوں کو یہ خبر ہو جاتی کہ اس کی یادداشت میں بھول چوک ہو گئی ہے تو وہ اس کی بات کو نہ مانتے اور اگر خود بھی اسے اس کا علم ہو جاتا تو اسے چھوڑ دیتا۔
وَ رَجُلٌ ثَالِثٌ، سَمِـعَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ شَیْئًا یَّاْمُرُ بِهٖ، ثُمَّ نَهٰی عَنْهُ وَ هُوَ لَا یَعْلَمُ، اَوْ سَمِعَهٗ یَنْهٰی عَنْ شَیْءٍ، ثُمَّ اَمَرَ بِهٖ وَ هُوَ لَایَعْلَمُ، فَحَفِظَ الْمَنْسُوْخَ، وَ لَمْ یَحْفَظِ النَّاسِخَ، فَلَوْ عَلِمَ اَنَّهٗ مَنْسُوْخٌ لَّرَفَضَهٗ، وَ لَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ اِذْ سَمِعُوْهُ مِنْهُ اَنَّهٗ مَنْسُوْخٌ لَّرَفَضُوْهُ.
تیسرا شخص وہ ہے کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کی زبان سے سنا کہ آپؐ نے ایک چیز کے بجا لانے کا حکم دیا ہے، پھر پیغمبر ﷺ نے تو اس سے روک دیا، لیکن یہ اسے معلوم نہ ہو سکا، یا یوں کہ اس نے پیغمبر ﷺ کو ایک چیز سے منع کرتے ہوئے سنا پھر آپؐ نے اس کی اجازت دے دی، لیکن اس کے علم میں یہ چیز نہ آسکی۔ اس نے (قول) منسوخ کو یاد رکھا اور (حدیث) ناسخ کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ اگر اسے خود معلوم ہو جاتا کہ یہ منسوخ ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا اور مسلمانوں کو بھی اگر اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر ہوتی تو وہ بھی اسے نظر انداز کر دیتے۔
فَهٰذِهِ وَجُوْهُ مَا عَلَیْهِ النَّاسُ فِی اخْتِلَافِهِمْ، وَ عِلَلِهِمْ فِیْ رِوَایَاتِهِمْ.
یہ ہیں لوگوں کے احادیث و روایات میں اختلاف کے وجوہ و اسباب۔

۱؂یہ ’’سلیم ابن قیس ہلالی‘‘ تھے جو امیر المومنین علیہ السلام کے رواة حدیث میں سے ہیں۔
۲؂امیر المومنین علیہ السلام نے اس خطبہ میں رواة حدیث کو چار قسموں میں منحصر کیا ہے:
پہلی قسم یہ ہے کہ راوی خود سے کسی روایت کو وضع کر کے پیغمبر ﷺ کی طرف منسوب کر دے۔ چنانچہ ایسی روایتیں گھڑ کر آپؐ کے سر منڈھ دی جاتی تھیں اور یونہی یہ سلسلہ جاری رہا اور نت نئی روایتیں معرض وجود میں آتی رہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی انکار کرتا ہے تو اس کی بنیاد علم و بصیرت پر نہیں، بلکہ سخن پروری و مناظرانہ ضرورت پر ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ علم الہدیٰ سیّد مرتضیٰ کو علمائے اہل سنت سے مناظرہ کا اتفاق ہوا تو سیّد مرتضیٰؒ نے تاریخی حقائق سے ثابت کیا کہ اکابر صحابہ کے فضائل میں جو روایتیں نقل کی جاتی ہیں وہ خود ساختہ اور جعلی ہیں۔ اس پر ان علماء نے کہا کہ: یہ ناممکن ہے کہ کوئی رسول اللہ ﷺ پر افترا باندھنے کی جرأت کرے او ر اپنی طرف سے کوئی روایت گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دے۔سیّد مرتضیٰؒ نے فرمایا کہ پیغمبر ﷺ کی حدیث ہے کہ:
سَتَكْثُرُ عَلَىَّ الْكَذَّابَةُ بَعْدَ مَوْتِىْ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّاْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ.
میرے بعد مجھ پر کثرت سے جھوٹ باندھا جائے گا۔ دیکھو!جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔[۱]
تو اگر اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہو تو تسلیم کرو کہ پیغمبر ﷺ پر جھوٹ باندھا گیا اور اگر غلط سمجھتے ہو تو اس کا غلط ہونا خود ہمارے دعویٰ کی دلیل ہے۔ بہر صورت یہ وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں نفاق بھرا ہوا تھا اور دین میں فتنہ و انتشار پیدا کرنے اور کمزور عقیدہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کیلئے من گھڑت روایتیں بناتے رہتے تھے اور جس طرح پیغمبر ﷺ کے زمانہ میں مسلمانوں سے گھلے ملے رہتے تھے اس طرح ان کے بعد بھی ان میں گھلے ملے رہے اور جس طرح اس وقت فساد و تخریب میں لگے رہتے تھے اسی طرح ان کے بعد بھی اسلام کی تعلیمات کو بگاڑنے اور اس کے نقوش کو مسخ کرنے کی فکر سے غافل نہ تھے، بلکہ پیغمبر ﷺ کے زمانہ میں تو ڈرے سہمے رہتے تھے کہ کہیں پیغمبر ﷺ انہیں بے نقاب کر کے رسوا نہ کر دیں، مگر آنحضرتؐ کے بعد ان کی منافقانہ سرگرمیاں بڑھ گئیں اور بے جھجک اپنے ذاتی مفاد و اغراض کیلئے پیغمبر ﷺ پر افترا باندھ ديتے تھے اور سننے والے انہیں صحابی رسولؐ سمجھ کر اعتبار و اعتماد کر لیتے تھے کہ بس جو کہہ دیا ہے وہ صحیح ہے اور جو فرما دیا ہے وہ درست ہے اور بعد میں بھی «اَلصَّحَابَةُ کُلُّھُمْ عَدُوْلٌ» : ’’صحابہ سب کے سب عادل ہیں‘‘ کے عقیدہ نے زبانوں پر پہرا بٹھا دیا کہ جس کی وجہ سے نقد و نظر اور جرح و تعدیل سے انہیں بلند و بالا سمجھ لیا گیا اور پھر ان کے کا رہائے نمایاں نے انہیں بارگاہ حکومت میں بھی مقرب بنا رکھا تھا جس کی وجہ سے ان کے خلاف زبان کھولنے کیلئے جرأت و ہمت کی ضرورت تھی۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا یہ قول شاہد ہے:
فَتَقَرَّبُوْا اِلٰۤى اَئِمَّةِ الضَّلَالَةِ وَ الدُّعَاةِ اِلَى النَّارِ بِالزُّوْرِ وَ الْبُهْتَانِ فَوَلَّوْهُمُ الْاَعْمَالَ وَ جَعَلُوْهُمْ حُكَّامًا عَلٰى رِقَابِ النَّاسِ.
ان لوگوں نے کذب و بہتان کے ذریعے گمراہی کے پیشواؤں اور جہنم کا بلاوا دینے والوں کے یہاں اثر و رسوخ پیدا کیا۔ چنانچہ انہوں نے ان کو (اچھے اچھے) عہدوں پر لگایا اور حاکم بنا کر لوگوں کی گردنوں پر مسلّط کر دیا۔
منافقین کا مقصد اسلام کی تخریب کے ساتھ دنیا کا حاصل کرنا بھی تھا اور وہ انہیں مدعی اسلام بنے رہنے کی وجہ سے پوری فراوانی سے حاصل ہو رہی تھی جس کی وجہ سے وہ اسلام کی نقاب اتار کر اپنے اصلی خط و خال میں سامنے آنا نہیں چاہتے تھے اور اسلام ہی کے پردے میں اپنے شیطانی اطوار کو جاری رکھتے تھے اور اس کی بنیادی تخریب کیلئے روایات وضع کر کے انتشار و افتراق پھیلانے میں لگے رہتے تھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے:
لَمَّا تُرِكُوْا تَرَكُوْا وَ حَيْثُ سُكِتَ عَنْهُمْ سَكَتُوْا عَنِ الْاِسْلَامِ وَ اَهْلِهٖ اِلَّا فِیْ دَسِيْسَةٍ خَفِيَّةٍ يَّعْمَلُوْنَهَا نَحْوَ الْكِذْبِ الَّذِیْۤ اَشَارَ اِلَيْهِ اَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ، فَاِنَّهٗ خَالَطَ الْحَدِيْثَ كِذْبٌ كَثِيْرٌ صَدَرَ عَنْ قَوْمٍ غَيْرِ صَحِيْحِی الْعَقِيْدَةِ، قَصَدُوْا بِهِ الْاِضْلَالِ وَ تَخْبِيْطِ الْقُلُوْبِ وَ الْعَقَآئِدِ وَ قَصَدَ بِهٖ بَعْضُهُمُ التَّنْوِيْهَ بِذِكْرِ قَوْمٍ كَانَ لَهُمْ فِی التَّنْوِيْهِ بِذِكْرِهِمْ غَرَضٌ دُنْيَوِیٌّ.
جب انہیں کھلا چھوڑ دیا گیا تو انہوں نے بھی بہت سی باتوں کو چھوڑ دیا اور جب ان سے خاموشی اختیار کر لی گئی تو انہوں نے بھی اسلام اور اہل اسلام کے بارے میں چپ سادھ لی، مگر درپردہ فریب کاریاں عمل میں لاتے رہتے تھے۔ جیسے کذب تراشی کہ جس کی طرف امیر المومنین علیہ السلام نے اشارہ کیا ہے، کیونکہ حدیث میں جھوٹ کی بہت زیادہ آمیزش کر دی گئی تھی اور یہ فاسد عقیدہ رکھنے والوں کی طرف سے ہوتی تھی۔ چنانچہ وہ اس کے ذریعہ سے گمراہی پھیلاتے، دلوں میں خدشے اور عقائد میں خرابیاں پیدا کرتے تھے اور بعض کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ ایک جماعت کو بلند کریں کہ جس سے ان کی دنیوی اغراض وابستہ ہوتی تھیں۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۴)
اس دور کے گزرنے کے بعد جب معاویہ دین کی راہنمائی اور ملک کی قیادت کا ذمہ دار بن کر تخت فرمانروائی پر متمکن ہوا تو اس نے جعلی روایتیں گھڑنے کا باقاعدہ ایک محکمہ کھول دیا اور اپنے کارندوں کو اس پر مامور کیا کہ وہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی تنقیص اور عثمان اور بنی امیہ کے فضائل میں حدیثیں گھڑ کر نشر کریں اور اس کیلئے انعامات اور جاگیریں مقرر کیں جس کے نتیجہ میں کثیر التعداد خود ساختہ فضائل کی روایتیں کتب احادیث میں پھیل گئیں۔ چنانچہ ابوالحسن مدائنی نے کتاب ’’الاحداث‘‘ میں تحریر کیا ہے اور ابن ابی الحدید نے اپنی شرح میں اسے درج کیا ہے کہ:
وَ كَتَبَ اِلَيْهِمْ اَنِ انْظُرُوْا مِنْ قِبَلِكُمْ مِنْ شِيْعَةِ عُثْمَانَ وَ مُحِبِّيْهِ وَ اَهْلِ وِلَايَتِهٖ وَ الَّذِيْنَ يَرْوُوْنَ فَضَآئِلَهٗ وَ مَنَاقِبَهٗ، فَاَدْنُوْا مَجَالِسَهُمْ وَ قَرِّبُوْهُمْ وَ اَكْرِمُوْهُمْ وَ اكْتُبُوْا لِیْ بِكُلِّ مَا يَرْوِیْ كُلُّ رَجُلٍ مِّنْهُمْ وَ اسْمَهٗ وَ اسْمَ اَبِيْهِ وَ عَشِيْرَتِهٖ. فَفَعَلُوْا ذٰلِكَ حَتّٰى اَكْثَرُوْا فِیْ فَضَآئِلِ عُثْمَانَ وَ مَنَاقِبِهٖ لَمَّا كَانَ يَبْعَثُهٗ اِلَيْهِمْ مُعَاوِيَةُ مِنَ الصِّلَاتِ وَ الْكِسَآءِ وَ الْحِبَآءِ وَ الْقِطَآئِعِ‏.
معاویہ نے اپنے عمال حکومت کو تحریر کیا کہ جو تمہارے یہاں عثمان کے طرفدار، ہوا خواہ اور دوستدار ہوں ان پر نظر توجہ رکھو اور ان لوگوں کو جو ان کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں انہیں اپنا دربار نشین اور مقرب قرار دو اور ان کا احترام کرو اور ان میں سے جو شخص جو روایت کرے وہ مجھے لکھو اور اس کے اور اس کے باپ اور اس کے قوم قبیلے کے نام سے مجھے آگاہ کرو۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ عثمان کے مناقب و فضائل کے انبار لگا دیئے، کیونکہ امیر معاویہ ایسے لوگوں کو جائزے، خلعتیں، عطیات اور جاگیریں دیتا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۶)
جب حضرت عثمان کے فضائل میں خود ساختہ روایتیں چار دانگ عالم میں پھیل گئیں تو اس خیال سے کہ پہلے خلفاء کا پلہ سبک نہ رہ جائے، اس نے اپنے عمال کو تحریر کیا:
فَاِذَا جَآءَكُمْ كِتَابِیْ هٰذَا فَادْعُوا النَّاسَ اِلَى الرِّوَايَةِ فِیْ فَضَآئِلِ الصَّحَابَةِ وَ الْخُلَفَآءِ الْاَوَّلِيْنَ وَ لَا تَتْرَكُوْا خَبَرًا يَّرْوِيْهِ اَحَدٌ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ فِیْۤ اَبِیْ تُرَابٍ اِلَّا وَ تَاْتُوْنِیْ بِمَنَاقِضٍ لَّهٗ فِی الصَّحَابَةِ، فَاِنَّ هٰذَا اَحَبُّ اِلَیَّ وَ اَقَرُّ لِعَيْنِیْ وَ اَدْحَضُ لِحُجَّةِ اَبِیْ تُرَابٍ وَّ شِيْعَتِهٖ وَ اَشَدُّ عَلَيْهِمْ مِنْ مَّنَاقِبِ عُثْمَانَ وَ فَضْلِهٖ. فَقُرِئَتْ كُتُبُهٗ عَلَى النَّاسِ فَرُوِيَتْ اَخْبَارٌ كَثِيْرَةٌ فِیْ مَنَاقِبِ الصَّحَابَةِ مُفْتَعَلَةٌ لَّا حَقِيْقَةَ لَهَا.
جب تمہیں میرا یہ فرمان ملے تو لوگوں کو اس امر کی دعوت دو کہ وہ صحابہ اور پہلے خلفاء کے فضائل میں بھی حدیثیں روایت کریں اور دیکھو مسلمانوں میں سے جو شخص بھی ابو تراب علیہ السلام کے بارے میں کوئی حدیث بیان کرے تو اسے توڑنے کیلئے صحابہ کیلئے بھی ویسی ہی حدیثیں گھڑ کر بیان کرو، کیونکہ یہ چیز مجھے بہت پسند اور میرے لئے خنکی چشم کا باعث ہے اور یہ چیز ابوترابؑ اور اس کے شیعوں کی حجت کو کمزور کرنے والی اور عثمان کے فضائل و مناقب سے بھی زیادہ گراں گزرنے والی ہے۔ چنانچہ اس کے خطوط لوگوں کو پڑھ کر سنائے گئے جس کے نتیجے میں صحابہ کے فضائل میں ایسی روایتیں گھڑنا شروع ہو گئیں کہ جن کی کوئی اصل و حقیقت نہ ہوتی تھی۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۶)
اس سلسلہ میں ابن عرفہ معروف بہ ’’لفظویہ‘‘ نے کہ جو اکابر علماء و محدثین میں سے تھے اپنی تاریخ میں تحریر کیا ہے اور ابن ابی الحدید نے اسے اپنی شرح میں درج کیا ہے کہ:
اِنَّ اَكْثَرَ الْاَحَادِيْثَ الْمَوْضُوْعَةِ فِیْ فَضَآئِلِ الصَّحَابَةِ افْتُعِلَتْ فِیْۤ اَيَّامِ بَنِیْۤ اُمَيَّةَ تَقَرُّبًا اِلَيْهِمْ بِمَا يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ يَرْغَمُوْنَ بِهٖ اُنُوْفَ بَنِیْ هَاشِمٍ.
صحابہ کے فضائل میں اکثر موضوع حدیثیں بنی اُمیہ کے دور میں گھڑی گئیں تا کہ ان کی بارگاہ میں رسوخ حاصل کیا جائے، کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ اس ذریعہ سے بنی ہاشم کو ذلیل و پست کر سکیں گے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۶)
وضع روایات کی عادت تو پڑ ہی چکی تھی، اب دنیا پرستوں نے سلاطین و امراء کا تقرب حاصل کرنے اور مال دنیا سمیٹنے کیلئے اسے ایک ذریعہ بنا لیا۔ جیسا کہ غیاث ابن ابراہیم نے مہدی ابن منصور کو خوش کرنے اور اس سے تقرب حاصل کرنے کیلئے کبوتروں کی پرواز میں ایک روایت گھڑ کر سنا دی اور ابو سعید مدائنی وغیرہ نے اسے ذریعہ معاش بنا لیا اور حد یہ ہے کہ کرامیہ اور بعض متصوفہ نے معصیت سے روکنے اور اطاعت کی طرف راغب کرنے کیلئے وضع حدیث کے جواز کا فتویٰ بھی دے دیا۔ چنانچہ ترغیب و ترہیب کے سلسلہ میں بے کھٹکے روایتیں وضع کی جاتی تھیں اور اسے شریعت و دیانت کے خلاف نہ سمجھا جاتا تھا، بلکہ عموما ًیہ کام وہی لوگ انجام دیتے تھے کہ جو بظاہر زہد و تقویٰ اور صلاح و رشد سے آراستہ ہوتے تھے اور جن کی راتیں مصلوں پر اور دن جھوٹی روایتوں سے دفتر سیاہ کرنے میں گزرتے تھے۔ چنانچہ ان جعلی روایتوں کی کثرت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ امام بخاری نے چھ لاکھ حدیثوں میں سے دو ہزار چھ سو اکسٹھ حدیثیں منتخب کیں، مسلم نے آٹھ لاکھ حدیثوں میں سے چار ہزار حدیثیں قابل انتخاب سمجھیں، ابو داؤد نے پانچ لاکھ حدیثوں میں سے چار ہزار آٹھ سو حدیثیں انتخاب کیں، احمد بن حنبل نے سات لاکھ پچاس ہزار حدیثوں میں سے تیس ہزار منتخب کیں،مگر جب بھی اس انتخاب کو دیکھا جاتا ہے تو ایسی حدیثیں سامنے آتی ہیں کہ وہ کسی حالت میں بھی پیغمبر اکرم ﷺ کی طرف منسوب نہیں کی جا سکتیں۔ چنانچہ آج مسلمانوں میں ایک معتدبہ طبقہ ایسا پیدا ہو چکا ہے جو کہ ان مسانید و صحاح پر نظر کرنے کے بعد سرے سے حدیث کی حجیت ہی سے انکار کر چکا ہے۔
دوسری قسم کے رواة وہ ہیں کہ جو موقع و محل کو سمجھے بغیر جو الٹا سیدھا انہیں یاد رہ جاتا تھا وہ روایت کر دیتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری، باب البکاء علی المیت میں ہے کہ جب حضرت عمر زخمی ہوئے تو صہیب روتے ہوئے ان کے ہاں آئے تو حضرت عمر نے کہا کہ:
يَا صُهَيْبُ! اَ تَبْكِیْ عَلَىَّ وَ قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهُ ﷺ: اِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَآءِ اَهْلِهٖ عَلَیْہِ.
اے صہیب! تم مجھ پر روتے ہو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ: ’’گھر والوں کے رونے سے میّت پر عذاب ہوتا ہے‘‘۔
جب حضرت عمر کے انتقال کے بعد حضرت عائشہ سے اس کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ: خدا عمر پر رحم کرے! رسول اللہ ﷺ نے تو ایسا نہیں فرمایا تھا کہ گھر والوں کے رونے سے مومن کی میت پر عذاب ہوتا ہے۔ البتہ یہ فرمایا تھا کہ کافر کی میت پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ام المومنین نے فرمایا کہ: قرآن میں تو یہ ہے کہ ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى‌ ﴾ [۲]: ’’ایک کا بار دوسرا نہیں اٹھاتا‘‘ تو یہاں رونے والوں کا بار میت کیسے اٹھائے گی۔ پھر حضرت عائشہ سے یہ حدیث درج کی ہے کہ جس سے پہلی حدیث کی مزید تشریح ہوتی ہے:
عن عَآئِشَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَتْ: اِنَّمَا مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ عَلٰى يَهُوْدِيَّةٍ يَّبْكِیْ عَلَيْهَا اَهْلُهَا، فَقَالَ: اِنَّهُمْ لَيَبْكُوْنَ عَلَيْهَا وَ اِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِھَا.
زوجہ رسولؐ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ: رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت کی طرف سے ہو کر گزرے کہ جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا کہ: اس کے گھر والے تو اس پر رو رہے ہیں اور وہ قبر میں مبتلائے عذاب ہے۔[۳]
تیسری قسم کے رواة وہ ہیں کہ جنہوں نے پیغمبر ﷺ سے حدیث منسوخ کو سنا مگر اس کی ناسخ حدیث کے سننے کا ان کو موقع ہی نہ ملا کہ وہ اسے بیان کرتے یا اس پر عمل کرتے۔ حدیث ناسخ کی مثال پیغمبر ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ جس میں حدیث منسوخ کی طرف بھی اشارہ ہے:
نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، اَلَا فَزُوْرُوْهَا.
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا مگر اب تم زیارت کر سکتے ہو۔[۴]
اس میں زیارت قبور کی نہی کو اِذن زیارت قبور سے منسوخ کر دیا ہے۔ تو جن لوگوں نے صرف حدیث منسوخ کو سن رکھا تھا وہ اسی پر عمل پیرا رہے۔
چوتھی قسم کے رواة وہ ہیں کہ جو عدالت سے آراستہ، فہم و ذکا کے مالک، حدیث کے مورد و محل سے آگاہ، ناسخ و منسوخ، خاص و عام، مقید و مطلق سے واقف اور کذب و افترا سے کنارہ کش ہوتے تھے، جو وہ سنتے تھے ان کے حافظہ میں محفوظ رہتا تھا اور اسے صحیح صحیح دوسروں تک پہنچا دیتے تھے۔ انہی کی بیان کردہ احادیث اسلام کا سرمایہ، غل و غش سے پاک اور قابل اعتماد و عمل ہیں۔ خصوصاً وہ سرمایۂ احادیث جو امیر المومنین علیہ السلام سے امانتدار سینوں میں منتقل ہوتا رہا اور قطع و برید اور تحریف و تبدل سے محفوظ رہنے کی وجہ سے اسلام کو صحیح صورت میں پیش کرتا ہے۔ کاش کہ دنیا علم کے ان سرچشموں سے پیغمبر ﷺ کے فیوض حاصل کرتی۔ مگر تاریخ کا یہ افسوسناک باب ہے کہ خوارج و معاندین آل محمدؑ سے تو حدیث لی جاتی ہے اور جہاں سلسلہ روایت میں اہل بیت علیہم السلام کی کسی فرد کا نام آ جاتا ہے تو قلم رک جاتا ہے، چہرے پر شکنیں پڑ جاتی ہیں اور تیور بدل جاتے ہیں۔

[۱]۔ منہاج البراعۃ، ج ۱۴، ص ۲۹۔
[۲]۔ سورۂ بنی اسرائیل، آیت ۱۵۔
[۳]۔ صحیح البخاری، ج ۱، ص ۴۳۲، حدیث ۱۲۲۷۔
[۴]۔ علل الشرائع، ج ۲، ص ۴۳۹۔