خدا تم پر رحم کرے! شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں)۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے۔ حکمت 78
(٢٦٦) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۶۶)
وَ سَئَلَهٗ ؑ رَجُلٌ اَنْ یُّعَرِّفَهُ الْاِیْمَانَ، فَقَالَ:
حضرتؑ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ: ایمان کی تعریف کیا ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ:
اِذَا كَانَ الْغَدُ فَاْتِنِیْ حَتّٰۤى اُخْبِرَكَ عَلٰۤى اَسْمَاعِ النَّاسِ، فَاِنْ نَّسِیْتَ مَقَالَتِیْ حَفِظَهَا عَلَیْكَ غَیْرُكَ، فَاِنَّ الْكَلَامَ كَالشَّارِدَةِ، یَنْقُفُهَا هٰذَا وَ یُخْطِئُهَا هٰذَا.
کل میرے پاس آنا، تاکہ میں تمہیں اس موقع پر بتاؤں کہ دوسرے لوگ بھی سن سکیں کہ اگر تم بھول جاؤ تو دوسرے یاد رکھیں۔ اس لئے کہ کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتا ہے کہ ایک کی گرفت میں آ جاتا ہے اور دوسرے کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
وَ قَدْ ذَكَرْنَا مَاۤ اَجَابَهٗ بِهٖ فِيْمَا تَقَدَّمَ مِنْ هٰذَا الْبَابِ وَ هُوَ قَوْلُهٗ ؑ: «اَلْاِيْمَانُ عَلٰۤى اَرْبَعِ شُعَبٍ».
(سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ:) حضرت نے اس کے بعد جو جواب دیا وہ ہم اسی باب میں پہلے درج کر چکے ہیں اور وہ آپؑ کا یہ ارشاد تھا کہ: «الایمان علی اربع شعب» (: ایمان کی چار قسمیں ہیں)۔

