لوگوں میں بہت درماندہ وہ ہے جو اپنی عمر میں کچھ بھائی اپنے لئے نہ حاصل کرسکے، اور اس سے بھی زیادہ درماندہ وہ ہے جو پاکر اسے کھو دے۔ حکمت 11
(٤٣١) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۴۳۱)
اَلرِّزْقُ رِزْقَانِ: طَالِبٌ وَّ مَطْلُوْبٌ، فَمَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا طَلَبَهُ الْمَوْتُ حَتّٰى یُخْرِجَهُ عَنْهَا، وَ مَنْ طَلَبَ الْاٰخِرَةَ طَلَبَتْهُ الدُّنْیَا حَتّٰى یَسْتَوْفِیَ رِزْقَهٗ مِنْهَا.
رزق دو طرح کا ہوتا ہے: ایک وہ جو خود ڈھونڈتا ہے اور ایک وہ جسے ڈھونڈا جاتا ہے۔ چنانچہ جو دنیا کا طلبگار ہوتا ہے موت اس کو ڈھونڈتی ہے، یہاں تک کہ دنیا سے اسے نکال باہر کرتی ہے، اور جو شخص آخرت کا خواستگار ہوتا ہے دنیا خود اسے تلاش کرتی ہے، یہاں تک کہ وہ اس سے تمام و کمال اپنی روزی حاصل کر لیتا ہے۔