خدا تم پر رحم کرے! شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں)۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے۔ حکمت 78
(١٩٩) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۹۹)
فِیْ صِفَةِ الْغَوْغَآءِ:
بازاری آدمیوں کی بھیڑ بھاڑ کے بارے میں فرمایا:
هُمُ الَّذِیْنَ اِذَا اجْتَمَعُوْا غَلَبُوْا، وَ اِذَا تَفَرَّقُوْا لَمْ یُعْرَفُوْا.
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ مجتمع ہوں تو چھا جاتے ہیں اور جب منتشر ہوں تو پہچانے نہیں جاتے۔
وَ قِیْلَ: بَلْ قَالَ ؑ:
ایک قول یہ ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ:
هُمُ الَّذِیْنَ اِذَا اجْتَمَعُوْا ضَرُّوْا، وَ اِذَا تَفَرَّقُوْا نَفَعُوْا.
جب اکٹھا ہوتے ہیں تو باعث ضرر ہوتے ہیں اور جب منتشر ہو جاتے ہیں تو فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
فَقِیْلَ: قَدْ عَرَفْنَا مَضَرَّةَ اجْتِمَاعِهِمْ، فَمَا مَنْفَعَةُ افْتِرَاقِهِمْ؟ فَقَالَ:
لوگوں نے کہا کہ ہمیں ان کے مجتمع ہونے کا نقصان تو معلوم ہے مگر ان کے منتشر ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ:
یَرْجِعُ اَصْحَابُ الْمِهَنِ اِلٰى مِهَنِهِمْ، فَیَنْتَفِـعُ النَّاسُ بِهِمْ، كَرُجُوْعِ الْبَنَّآءِ اِلٰى بِنَآئِهٖ، وَ النَّسَّاجِ اِلٰى مَنْسَجِهٖ، وَ الْخَبَّازِ اِلٰى مَخْبَزِهٖ.
پیشہ ور اپنے اپنے کاروبار کی طرف پلٹ جاتے ہیں تو لوگ ان کے ذریعہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جیسے معمار اپنی (زیر تعمیر) عمارت کی طرف، جولاہا اپنے کاروبار کی جگہ کی طرف اور نانبائی اپنے تنور کی طرف۔