جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہیے، اور زبان سے درس اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چاہیے۔ حکمت 73
(١٦) وَ سُئِلَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۶)
عَنْ قَوْلِ الرَّسُوْلِ ﷺ: «غَیِّرُوا الشَّیْبَ، وَ لَا تَشَبَّهُوْا بِالْیَهُوْدِ».
پیغمبر ﷺ کی حدیث کے متعلق کہ: « بڑھاپے کو (خضاب کے ذریعہ) بدل دو اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو»۔آپؑ سے سوال کیا گیا
فَقَال عَلَیْهِ السَّلَامُ:
تو آپؑ نے فرمایا کہ:
اِنَّمَا قَالَ ﷺ ذٰلِكَ وَ الدِّیْنُ قُلٌّ، فَاَمَّا الْاٰنَ وَ قَدِ اتَّسَعَ نِطَاقُهٗ وَ ضَرَبَ بِجِرَانِهٖ، فَامْرُؤٌ وَّمَا اخْتَارَ.
پیغمبر ﷺ نے یہ اس موقع کیلئے فرمایا تھا جبکہ دین (والے) کم تھے اور اب جبکہ اس کا دامن پھیل چکا ہے اور سینہ ٹیک کر جم چکا ہے تو ہر شخص کو اختیار ہے۔
مقصد یہ ہے کہ چونکہ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لئے ضرورت تھی کہ مسلمانوں کی جماعتی حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے انہیں یہودیوں سے ممتاز رکھا جائے۔ اس لئے آنحضرت ﷺ نے خضاب کا حکم دیا کہ جو یہودیوں کے ہاں مرسوم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ مقصد بھی تھا کہ وہ دشمن کے مقابلہ میں ضعیف و سن رسیدہ دکھائی نہ دیں۔